بھارتی کرکٹ بورڈ،آئی سی سی پرمن پسند فیصلےٹھونسنےکاخواہاں
بی سی سی آئی نے کئی ایسے معاملات میں بے جا اپنی ٹانگ اڑائی جس کا اس سے تعلق نہ تھا، دنیا کے تمام ممالک کے کرکٹ بورڈ اس سے ناراض ہیں
سید اختر حسین ترمذی
ہندوستانی کرکٹ بورڈ یعنی بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی ) عالمی کرکٹ میں اس وقت انتہائی متمول ترین ادارہ ہے ۔ اطلاعات کے مطابق بورڈ کے پاس اس قد خطیر رقم ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی کرکٹ بورڈ کو خرید سکتا ہے ۔ 2000ء کی ابتداء ہی سے بی سی سی آئی کا مالی موقف مستحکم ہونے لگا اور جب 2008ء میں انڈین پرئمیر لیگ (آئی پی ایل) کا آغاز ہوا تب سے بورڈ گویا روپوں میں کھیلنے لگا ہے۔ بی سی سی آئی بے شمار د ولت کا مالک بن گیا ہے ۔ اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں تاہم دولت کے بل بو تے پر اس نے عالمی کرکٹ پر اپنی اجارہ داری شروع کر دی اور مختلف فیصلوں پر اثر انداز ہونے لگا ہے جو انتہائی اعتراض ہے ۔ حالیہ عرصہ میں بی سی سی آئی نے کئی ایسے معاملات میں بے جا اپنی ٹانگ اڑائی جس کا اس سے تعلق نہ تھا۔ ابتدا میں وہ کرکٹ سے متعلق فیصلوں جیسے امپا ئر ریو یو سسٹم کی بے جامخالفت کرتا رہا اور اب پاکستان اور سری لنکا بورڈ کے اندرونی معاملات میں بھی داخل ہونے لگا ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی ) عالمی سطح پر کرکٹ کے امور سے متعلق دیکھ بھال کیلئے قائم کردہ ادارہ ہے ۔ کرکٹ میں اس کی وہی حیثیت ہے جو فٹبال میں اسکے عالمی ادارہ فیفا کی ہے ۔ فیفا کا ہر فیصلہ ٹھوس اور قطعی ہوتا ہے ۔اس میں کوئی بے جا مخالفت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ تاہم آئی سی سی کے ساتھ یہ صورتحال نہیں ہے ۔ آئی سی سی جب بھی کرکٹ کے فروغ کیلئے کچھ فیصلے کرتی ہے ، بی سی سی آئی اس میں اپنی ٹانگ اڑا دیتا ہے ۔ اس سلسلہ میں امپائرکے فیصلوں پر نظر ثانی کیلئے متعارف کردہ نظام کی مثال لی جاسکتی ہے ۔ امبارئرس ڈسیشن ریو یو سسٹم یعنی یو ڈی آر ایس کو 2008ء میں پہلی مرتبہ ہند، سری لنگا ٹسٹ سیریز کے دوران متعارف کرایا گیا ۔ اس سیریز میں چند ایک فیصلے ہندوستانی ٹیم کے خلاف گئے تب سے بی سی سی آئی کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ نظام ناقابل عمل ہے ۔ اس وقت سے بورڈ ڈی آر ایس کی شدت سے مخالفت کرتا رہا ہے ۔ جبکہ انگلینڈ ، جنوبی آفریقہ اور آسٹریلیا کے بورڈ اس نظام کے ز بردست حامی ہیں ۔ آئی سی سی نے ابتدا ء میں ڈی آر ایس کو تجرباتی طور پر نافذ کیا اور بعد میں اس کا ارادہ اس کو مستقل طور پر رائج کرنے کا تھا۔ تاہم محض ہندوستانی بورڈ کی مخالفت کے سبب آئی سی سی نے اس نظام کو اختیاری رکھا ہے یعنی 2ممالک کی ٹیمیں جب ایک دوسرے کے خلاف باہمی ٹیسٹ سیریز کھلیں تب دونوں متعلقہ بورڈ کی رضا مندی کے ذ ریعہ اس نظام پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح 2008ء کے بعد ہندستانی ٹیم نے جب بھی کسی ٹیم کے ساتھ ٹیسٹ سیریز کھیلی ، ڈی آر ایس کو نافذ نہیں کیا گیا۔
موجودہ دورٹیکنا لوجی کا ہے ‘زندی کے ہر شعبہ میں ٹیکنا لوجی کو اہمیت حاصل ہے ۔ آی سی سی بھی کرکٹ کو جدید ٹکنالوجی سے مزین کرنے کیلئے کوشاں ہے تاہم بی سی سی آئی جیسے مفاد پرست ادارے محض اپنی انا اور بڑائی کو ظاہر کرنے کیلئے ٹیکنا لوجی کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ جہاں تک ڈی آر ایس کا تعلق ہے ، اس نظام کے تحت اگر امپائر کے کسی فیصلہ پر بیسٹ مین یا فلڈنگ ٹیم مطمئن نہ ہوتی ہو تب اس کی اپیل پر امپائر ، تیسرے امپائر سے رجو ع ہوتا ہے۔جو ٹیلی ویژن پر مختلف زاویوں سے ری پلے دیکھ کر قطعی فیصلہ کرتا ہے ۔ اس طرح کرکٹ میں امپائرس کے فیصلے نقائص سے پاک ہوئے تاہم بی سی سی آئی کا یہ بے جا مؤقف ہے کہ ڈی آر ایس قابل اعتماد نہیں ہے اور اس پر آنکھ بند کر کے بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر بی سی سی آئی کو ٹیکنالوجی پر بھروسہ نہیں اور وہ اس کے استعمال کے خلاف ہے تب وہ رن آؤٹ کے معاملہ پر کیوں خاموش ہے ۔ جس پرفیصلہ ٹی وی رے پلے دیکھ کر کیا جاتا ہے ا و ر یہ طریقہ طویل عرصہ سے نافذ العمل ہے۔حالیہ عر صہ میں بی سی سی آئی کے مزید چند ایک فیصلے ایسے رہے جو انتہائی قابل اعتراض ہیں۔ حال ہی میں بورڈ نے اپنے کھلاڑیوں کو آئندہ ماہ منعقد ہونے والی اولین سری لنکن پرئمیر لیگ(ایس ایل پی ایل) میں حصہ لینے سے روک دیا۔ اس کا مؤقف ہے کہ ایس ایل پی ایل ، سنگاپور کی ایک خانگی کمپنی کی ملکیت ہے لہذا وہ اپنے کرکٹرز کو کبھی خانگی کمپنی کی ملکیت سے ایونٹس میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ دوسری جانب سری لنکن کرکٹ بورڈ نے اس بات کی کھلے طور پر وضاحت کردی کہ سنگا پور کی کمپنی کو محض کچھ حقوق دئیے گئے ہیں جبکہ لیگ خالصتاً اس کی اپنی ملکیت ہے۔ اس سلسلہ میں بی سی سی آئی نے ایک او رعذر پیش کیا ہے کہ متذکرہ کمپنی میں آئی پی ایل کے برطرف شدہ چیئر مین للت مودی کے وسیع شیئرز ہیں ۔ لہٰذا وہ کسی ایسی لیگ کو تسلیم نہیں کرسکتا جس کا مودی سے تعلق ہو۔ بی سی سی آئی سے پڑوسی ملک پاکستان کا کرکٹ بورڈ بھی کافی ناراض ہے ۔ کیونکہ محض اسی کی مخالفت کے سبب چیمپئین لیگ ٹی 20ٹورنمنٹ میں پاکستانی ٹیموں کو شامل نہیں کیا جارہا ہے۔ لیگ کو 2009 ء میں متعارف کرایا گیا ۔ پچھلے2 برس سے پاکستان کی ڈومیسٹک چیمپئین سیالکوٹ کو لیگ میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس سلسلہ میں بی سی سی آئی کوئی ٹھوس مؤقف بھی نہیں رکھتا ہے ۔ لہٰذا اس نے خاموشی اختیار کی ہے ۔ حال ہی میں چیمپیئن لیگ کا شیڈول جاری کیا گیا جو رواں برس اکتوبر میں ہندوستان میں منعقدہوگی ۔ اس میں آئی پی ایل کے علاوہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی آفریقہ ، انگلینڈ، سری لنکا، اور ویسٹ انڈیز کی فاتح ٹی 20 ٹیمیں حصہ لیں گی جبکہ پاکستان کی ڈومیسٹک ٹیم کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) نے اس مسئلہ کو آئی سی سی اجلاس میں اٹھانے اور احتجاج بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔
دولت کے نشہ میں چور بی سی سی آئی کرکٹ کے ہر معاملہ میں انٹر انداز ہوتا جارہا ہے ۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ آئی سی سی بھی اس سلسلہ میں کچھ کرنے سے قاصر ہے اور پوری طرح بے بس نظر آتی ہے۔ یقیناً آئی سی سی کے صدر شردپوار ہیں جو کے اتفاق سے ہندوستانی ہیں تاہم اس کے باوجود شرد پوار، پی سی سی آئی کو اس کے حدود میں آگاہ کرنے میں ناکام رہے ہیں)
ہندوستانی کرکٹ بورڈ کی جانب سے ہر معاملہ میں دخل اندازی کا یہ سلسلہ اگر یوں ہی جاری رہا تب وہ دن دور نہیں جب دنیا کے دیگر تمام ممالک کے کرکٹ بورڈز متحد ہو جائیں گے اور بی سی سی آئی کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیں گے ۔ اس دن سے محفوظ رہنے کیلئے بورڈ کے پاس اب بھی وقت ہے کہ سنبھل جائے ورنہ اگر پانی سرسے اونچا ہو جائے تب کچھ بھی ممکن نہیں ہوتا کیونکہ یہ قانون قدرت ہے کہ ہر عروج کا ایک نہ ایک دن زوال یقینی ہوتا ہے۔
Deep thought! Thanks for cotgtiburinn.