انتخابی ٹربیونل کے فیصلے سے سیاسی ہلچل، فا ئدہ کس جماعت کو ہو گا؟
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور صوبائی پارلیمانی سیکرٹری محسن لطیف کے خلاف انتخابی ٹربیونل کے فیصلے نے سیاسی ہلچل مچادی ہے۔ این اے 122 میں 92 ہزار انگوٹھوں کی شناخت نہ ہونا اس فیصلے کی بنیاد ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق اور قومی اسمبلی کے ذیلی حلقے پی پی 148 کے مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری اختر رسول کا اعتراض ہے کہ وہ کون سا پیمانہ تھا جس سے پتہ چلا کہ این اے 122 کے شناخت نہ ہونے والے تمام انگوٹھے این اے 122 کے ذیلی صوبائی حلقے پی پی 147 ہی کے تھے۔ چوہدری اختر رسول کا اعتراض ہے کہ پی پی 148 میں ان سے جیتنے والے تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی میاں اسلم اقبال کو نوازا گیا ہے۔ اعتراض کی حد تک بات رہتی تو کچھ مضائقہ نہیں تھا لیکن بات اس سے بڑھ کر الزام تراشی تک جا پہنچی ہے۔ مسلم لیگ ن کے وفاقی اور صوبائی وزراء انتخابی ٹربیونل کے جج کے لتے لے رہے ہیں اور چیئر مین تحریک انصاف عمران خان الیکشن کمیشن کے چیف کو چھوڑ کر باقی چاروں ممبران کے گلے پڑ رہے ہیں۔ بات دھمکیوں اور احتجاج تک جا پہنچی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی الیکشن کمیشن کے چاروں ممبران کی رخصتی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان کے مطالبے کی حمایت نہیں کر رہے بلکہ ان کا پہلے ہی سے یہ مطالبہ تھا۔ ہمیں حیرت ہے کہ پاکستان میں جمہوریت پسند لوگ بھی کیوں نظام کو بہتر بنانے کی بجائے اسے جڑ سے اکھاڑنے پر تل جاتے ہیں۔ عمران خان کا دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ جائز تھا، ان کا یہ مطالبہ بھی حقیقت پر مبنی تھا کہ جو بندہ دھاندلی کا ذمہ دار قرار پائے اسے سزا ملنی چاہیے اب جبکہ انتخابی ٹریبونل کے جج کاظم ملک نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اس فیصلے کے مطابق جو ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کے حکام بے ضابطگیوں کے ذمہ دار ہیں ان کے محاسبے اور سزا دیئے جانے کی بات کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن کے چاروں ممبران کے استعفے کا مطالبہ محض سیاست بازی ہے۔ آپ چاروں ممبران الیکشن کمشن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں چلے گئے ہیں تو وہاں سے فیصلہ لیں یہ کیا ہوا کہ آپ ماحول میں سیاسی تلخی میں اضافہ کرنے کا باعث بن رہے۔ تحریک انصاف میں ایک نووارد رہنمادیوان غلام محی الدین کی رہائش گاہ پر ایک عشائیے میں تحریک انصاف کے ایک اہم لیڈر اور وہاں موجود تحریک انصاف کے حامیوں کی جو گفتگو سنی اس سے صاف واضح ہو رہا تھا کہ انہیں سپریم جوڈیشل کونسل پر بھروسہ نہیں ہے کہ ان کے حق میں فیصلہ دے گی سو سیاسی اودھم کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے سیاسی محاذ پر بدلتے ہوئے رنگوں سے تحریک انصاف کو پہلے بھی نقصان ہوا تھا اب بھی اسے سیاسی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ ملک میں جمہوری نظام کو مستحکم کرنا ہے تو پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ایسا ممکن ہو گا۔ پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں جن کا تعلق حکومت سے ہے یا اپوزیشن سے سب مل کر انتخابی اصلاحات لائیں ۔الیکشن کمشن کا نیا ڈھانچہ تشکیل دینا ہو گا جس میں الیکن کمشن انتظامی اور مالی طور پر خود مختار ہو۔ اس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہو یا قانون سازی کی سب سرجوڑ کر بیٹھیں اور اتفاق رائے سے قدم اٹھائیں۔ ایسا ’’انتخاب‘‘ پاکستانیوں کا خواب ہے کہ جسے ہارنے والا بھی خوشدلی سے تسلیم کرے۔ تحریک انصاف کی اس سلسلے میں جدوجہد قابل ستائش ہے مگر بار بار پگڈنڈیوں پر نکل جانے کے باعث منزل تک نہیں پہنچ پا رہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو بھی صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہماری رائے میں وزیر اعظم نواز شریف انتخابی اصلاحات کے ضمن میں خود آگے بڑھ کر پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں کو اپنے ساتھ چلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ملک میں انتخابی نظام میں اصلاحات رائج کر دیتے ہیں تو وہ ملک کے مدبر سیاستدان کہلائیں گے۔ جہاں تک اپوزیشن میں موجود بہت سے لوگوں کا ان شریفوں کی بجائے کسی اور شریف کو دیکھنے کا خواب ہے شاید وہ پورا نہ ہو سکے۔ اگر خدانخواستہ ایسا کچھ ہو جاتا ہے تو پاکستان میں جمہوریت ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گی۔
رپورٹ: فرخ سعید