متحدہ میں الطاف حسین کےخلاف بغاوت ہو گئی، اکثریتی راہنماؤں کی چھپ کر شدید مخالفت، جان کے خوف سے سب کی سرگرمیاں محدود
ملک کے سکیورٹی اداروں کے خلاف متنازع بیان کے بعد الطاف حسین کو اپنی ہی پارٹی کے رہنماوءں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ ایم کیو ایم ذرائع نے بتایا کہ الطاف کے موقف کی مخالفت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک درجن سے زائد پارٹی رہنما نجی محفلوں میں پارٹی سربراہ کے ملکی سکیورٹی اداروں پر حملوں پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں جبکہ پارٹی کے ایک گروپ نے پارٹی اجلاسوں میں الطاف کے بیان کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ اقوام متحدہ اور نیٹو کو ایم کیو ایم کے خلاف جاری آپریشن روکنے کیلئے مداخلت کی دعوت دینے کے بعد الطاف کو تمام سیاسی حلقوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں سے جڑے ہوئے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن میں متحدہ کے سینکڑوں کارکن بھی گرفتار ہو چکے ہیں۔ متحدہ کے کئی سینئر رہنما اس بیان کے بعد خود کو الطاف سے الگ کر رہے ہیں۔
پارٹی کے رہنماوءں کے ایک گروپ نے پارٹی اجلاس میں مزید سیاسی تنہائی سے بچنے کیلئے بھی تبادلہ خیال کیا۔ اس گروپ نے اقوام متحدہ اور بھارت سمیت 55ملکوں کو خط بھیجنے کے فیصلے کی بھی مخالفت کی ہے۔
متحدہ کے سینئر رہنماوءں کے ایک اور گروپ نے اپنی سرگرمیاں کم کردی ہیں اور یہ رہنما عوام کے سامنے آنے سے بھی گریز کررہے ہیں۔ بابر غوری، رضا ہارون، فیصل سبزواری، حیدر عباس رضوی اور روف صدیقی سمیت کئی رہنماوءں نے اب تک الطاف حسین کا دفاع نہیں کیا اور موبائل فونز بند کرکے عوام کے سامنے آنے سے بھی گریز کررہے ہیں۔ اب تک صرف فاروق ستار نے چند رہنماوءں کے ساتھ ملکر پارٹی سربراہ کے متنازع بیانات کا دفاع کیا ہے۔ متحدہ کی سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کے رکن امین الحق نے گفتگو میں الطاف حسین کے اقدامات کادفاع کرتے ہوئے کہا کہ دیگر سیاسی گروپوں کی طرح ایم کیو ایم کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے انصاف نہ ملنے پر اقوام متحدہ سے رابطہ کرے۔ انہوں نے کہا ایم کیو ایم کراچی میں قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر سکیورٹی آپریشنز کی مخالف نہیں ہے۔
لاہور/فیکٹ رپورٹ