ملک اسحاق کہتا تھا، گواہوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔۔۔دہشت گردی کا ایک باب بند ہو گیا لیکن۔۔اہم ترین انکشافات
کم وبیش دو دہائیوں تک دہشت کی علامت بنے رہنے والے ملک اسحاق کا انجام یہی ہونا تھا۔کوئی ایک ماہ سے ملک اسحاق ریمانڈپر پولیس کی تحویل میں تھا۔ گذشتہ ہفتے اسے محکمہ انسداد دہشت گردی کے حوالے کیاگیا۔ اسی دوران آئی جی پنجاب نے ملتان،مظفرگڑھ اور بہاولپور کادورہ کیا تو چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ تین روز قبل ملتان میں پھانسیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا تو پریس کلب میں یہ سوال زیربحث آیا کہ کیاملک اسحاق کو پھانسی دینا بھی ممکن ہو گا؟ عدالتی خبروں اور جرائم کی دنیا پر گہری نظررکھنے والے ایک سینئر صحافی نے اسی محفل میں کہا کہ ’پولیس اورعدالتوں کیلئے یہ تو ممکن نہ ہوا کہ وہ اعتراف جرم کے باوجود اْسے مجرم ثابت کرسکیں بھلاپھانسی کیسے ممکن ہوگی۔اسے کسی اورطریقے ہی سے ٹھکانے لگایا جائے گا ‘اورپھر وہی ہوا۔ ملک اسحاق کو ٹھکانے لگادیاگیا۔ابتدائی خبروں میں بتایاگیا کہ وہ پولیس مقابلے میں ماراگیا ہے۔بعد ازاں مظفرگڑھ پولیس کی جانب سے پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ ملک اسحاق سمیت تمام دہشت گرد’ اپنے ہی ساتھیوں‘ کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
پاکستان میں یہی مروجہ طریقہ ہے کہ عدالتیں اورپولیس جب ناکام ہوجائیں تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی تونہیں ہوتا۔ملک اسحاق نے 100افراد کے قتل کا اعتراف تو اکتوبر 1997ء میں ایک اخباری انٹرویو کے دوران ہی کر لیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ 70سے زیادہ مقدمات میں وہ بری ہوتا چلا گیا۔ ہر مقدمے کے گواہ یا تو خود منحرف ہوئے یا انہیں ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دیا گیا۔ دوکوٹہ فائرنگ کیس (میلسی) کی سماعت کے دوران ملک اسحاق کا ایک جملہ بہت مشہورہوا۔ جب انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عینی شاہدین نے اس کی شناخت کی تو اس نے جج سے کہاکہ مْردوں کی گواہی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور ان میں سے کچھ گواہ کچھ عرصے بعدہی ٹھکانے لگادیئے گئے۔ وہ مقدمات کی سماعت کے دوران ججوں اور پولیس والوں کو دھمکیاں بھی دیتا تھا اور وہ محض دھمکیاں نہیں ہوتی تھیں۔ ایسے ہی ایک مقدمے میں اس نے اس وقت کے ایڈیشنل ایس پی ملتان اشرف مارتھ کو دھمکی دی تھی کہ تمہاری زندگی کے دن گنے جاچکے ہیں تم جہاں بھی جاؤگے میں تمہارا تعاقب کروں گا اورپھرکچھ عرصے بعدہی اشرف مارتھ گوجرانوالہ میں دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔ وہ اس وقت ایس ایس پی کے عہدے پرتعینات تھے۔
ملک اسحاق اوراس کے ساتھیوں نے1997ء میں جب سپاہ صحابہ سے الگ ہوکر لشکرجھنگوی بنائی تو اسے القاعدہ اور طالبان کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔پھردہشت گردی کاایسا بازار گرم ہوا کہ پاکستان کے گلی کوچے لہورنگ ہو گئے۔ چن چن کر مذہب کے نام پر اہل تشیع کو قتل کیاگیا۔مجالس اور امام بارگاہوں کو نشانہ بنایاگیا اور پاکستان میں فرقہ واریت اپنی انتہاء کوپہنچ گئی۔
کیا ملک اسحاق کی موت سے واقعی لشکرجھنگوی کا نیٹ ورک ٹوٹ گیا ہے؟ کیا اس کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آئے گا؟ ایسے بہت سے سوالات ابھی قبل ازوقت ہیں لیکن اس کے انجام نے یہ ثابت کردیا کہ جن قوتوں نے اسے اتنا طاقتور بنایا کہ پولیس اورعدالتیں بھی اس کے سامنے بے بس دکھائی دیتی تھیں جب ان کو اس کی ضرورت نہ رہی تو انہی قوتوں نے اسے جنگل شاہ والہ میں اس کے ’اپنے ہی ساتھیوں‘ سے مرو ا دیا۔ تاریخی طور پر دہشت کا انجام یہی ہوتا ہے لیکن عاقبت کے نام پر سیاست کرنے والے عاقبت اندیش نہیں ہوتے۔
رضی الدین رضی