اس برس کے شروع میں تیونس سے عرب دنیا کی جس سیاسی کایا کلپ کا آغاز ہوا تھا لیبیا اس فہرست کا تازہ ترین باب ہے جہاں آہنی ہاتھوں سے حکومت کرنے والے عرب آمروں کا انجام نوشتہ دیوار بنا ہے۔
عرب جمہوریہ لیبیا کے کرنل معمر قذافی طویل ترین عرصے تک برسراقتدار رہنے والے عرب رہنما تھے۔اکتالیس برس پہلے ایک نوجوان کرنل کی حیثیت سے حکومت پر قبضہ کرنے والے معمر قذافی کے بارے میں چند ماہ پہلے شاید ہی کوئی یہ پیش گوئی کر سکتا تھا کہ ان کی حکومت کا کنٹرول اتنی تیزی سے ملک پر سے ختم ہونے لگے گا۔معمر قذافی 1942 میں سِرت کے نزدیک ایک صحرائی علاقے میں پیدا ہوئے اور اوائل جوانی میں وہ عرب قوم پرستی کے پیروکار اور مصری رہنما جمال عبدالناصر کے شیدائی تھے۔1956 کے نہر سوئز کے بحران کے دوران مغرب اور اسرائیل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھی وہ پیش پیش رہے تھے۔
لیبیا میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کا منصوبہ فوجی تربیت کے دور سے ہی ان کے ذہن میں تھا اور بالآخر1969 میں برطانیہ سے تربیت حاصل کرکے لوٹنے کے بعد انہوں نے بن غازی شہر کو مرکز بناکر فوجی بغاوت کردی اور خود لیبیا کے رہنما بن کر ابھرے۔
کرنل قذافی ستر کی دہائی میں عرب قوم پرستی کے علمبردار رہے اور انہوں نے لیبیا کو اس وقت کے مصری ، شامی اور اردنی رہنماؤں کے ساتھ کئی معاہدوں میں بھی منسلک کیا۔ ساتھ ساتھ انہوں نے براعظم افریقہ میں بھی اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔لیکن1990 کی دہائی میں عرب دنیا کو اپنی قیادت میں متحد کرنے کی کوشش میں ناکام رہنے کے بعد انہوں نے اپنی ساری توجہ براعظم افریقہ پر مرکوز کردی اور افریقی ملکوں کے لیے ایک ریاست ہائے متحدہ کا خیال بھی پیش کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے افریقی ملکوں کی ثقافت سے ملتے جلتے لباس بھی پہننا شروع کیے۔
کرنل معمر قذافی دنیا بھر میں مختلف عسکریت اور شدت پسند تنظیموں کے بھی پشت پناہ اور مددگار رہے ہیں جن میں تنظیم آزادء فلسطین یا پی ایل او، آئرش ریپبلکن آرمی اور افریقہ کے کئی شدت پسند گروپ شامل ہیں۔
امریکہ نے 1986 میں یورپ کے بعض شہروں میں بم دھماکوں کے لیے کرنل قذافی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دارالحکومت طرابلس اور بن غازی شہر پر بمباری بھی کی جس میں کرنل قذافی کی لے پالک بیٹی ہلاک ہوگئی تھی۔1990 کی دہائی میں عرب دنیا کو اپنی قیادت میں متحد کرنے کی کوشش میں ناکام رہنے کے بعد انہوں نے اپنی ساری توجہ براعظم افریقہ پر مرکوز کردی اور افریقی ملکوں کے لیے ایک ریاست ہائے متحدہ کا خیال بھی پیش کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے افریقی ملکوں کی ثقافت سے ملتے جلتے لباس بھی پہننا شروع کیے۔
امریکہ اور برطانیہ نے دسمبر 1988 میں اسکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی کے نزدیک پین امیریکن کے مسافر بردار جہاز کی تباہی کا ذمہ دار معمر قذافی کو قرار دیتے ہوئے لیبیا پر اقوام متحدہ کے ذریعے پابندیاں عائد کرا دیں۔ اس واقعے میں اکیس ملکوں سے تعلق رکھنے والے دو سو ستر لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔2003 میں عراق میں صدام حکومت کے سقوط کے بعد کرنل معمر قذافی نے اپنی عالمی تنہائی ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور لاکربی واقعے کا مقدمہ اسکاٹ لینڈ کے قانون کے تحت ہالینڈ میں چلوانے پر رضامندی ظاہر کی۔ برطانیہ کے ساتھ ایک سمجھوتے کے تحت انہوں نے اپنے خفیہ ادارے کے ایک سابق اہلکار عبدالباسط المگراہی کو بھی ہالینڈ کے حوالے کردیا۔
عدالت نے اس مقدمہ میں المگراہی کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید سنائی جبکہ لیبیا نے لاکربی واقعے میں مرنے والوں کے ورثاء کو ہرجانے کے طور پر کئی ارب ڈالر بھی ادا کیے۔ چند ماہ بعد ہی کرنل معمر قذافی نے لیبیا کے جوہری اور کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام کو ختم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد مغرب نے ان کو مکمل طور قبول کرلیا۔
منفرد طریقے اپنانے کے لیے مشہور کرنل قذافی اکثر ٹیلی ویڑن پر خیموں میں مقیم دکھائی دیتے جہاں وہ غیرملکی رہنماؤں کا استقبال بھی کرتے جبکہ کہا جاتا ہے کہ ان کے ذاتی محافظوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔
عرب قیادت کے حوالے سے کرنل قذافی کے اکثر دیگر عرب رہنماؤں سے اختلافات بھی رہے ہیں۔ چند برس پہلے قاہرہ میں عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کے دوران تو ان کی سعودی بادشاہ عبداللہ سے سرعام توتومیں میں بھی ہوئی تھی۔
کرنل قذافی کی عمر اڑسٹھ برس تھی اور ان کی جانشینی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے سیف الاسلام قذافی کو تیار کر رہے تھے۔
لیبیا میں ان کے پورے دور اقتدار میں خفیہ اداروں کی بنیاد پر استوار ایک نہایت سخت گیر نظام رہا۔ اسی نظام کے اندر انہوں نے پہلے سوشلزم، سرمایہ داری اور اسلام کے کچھ پہلوؤں کو ملا کر اپنی سبز کتاب پر مبنی سیاسی نظریات پیش کیے۔
پھر 1977میں جماہریہ کے نام سے ایک ایسا نظام بنایا جس میں بظاہر اختیارات عوام پر مشتمل ہزاروں پیپلز کمیٹیوں کے ہاتھ میں تھے لیکن عملاً ماہرین کے مطابق کرنل قذافی ہی تمام اختیارات کا سرچشمہ تھے۔اپنے پورے دور اقتدار میں انہوں نے اپنے خلاف کسی بھی طرح کے مخالفت کو انتہائی بیدردی سے کچل کر رکھا۔ شائد یہی وجہ تھی کہ ان کے خلاف احتجاج کے دوران بھی کوئی متبادل قیادت سامنے دکھائی نہ دی۔تیونس سے شروع ہونے والے عرب عوامی بیداری کے اس سیلاب میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کرنل معمر قذافی کے بعد کا لیبیا کیسا ہوگا۔
v good