چین سے 42 ارب ڈالر کے مشکوک معاہدے،جواب اورحساب کون لے گا؟
حکومت نے اسے چائنا انویسٹمنٹ کا نام دیا ہے حالانکہ انویسٹمنٹ نفع نقصان کے برابر اصولوں کے مطابق ہوتی ہے جبکہ ان معاہدوں میں ایسا کوئی اصول کارفرما نہیں
پاکستان اور چین کی اعلیٰ قیادت نے بیجنگ میں 42ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔جن میں سے 34ارب ڈالر توانائی سیکٹر پر خرچ کئے جائیں گے۔جبکہ 8ارب ڈالر بنیادی ڈھانچہ کی ترقی پر خرچ کئے جائیں گے۔ یہ معاہدے اکتوبر میں اسلام آباد میں چین کے صدر زی جین پنگ کے دورہ پاکستان کے موقع پر ہونے تھے۔ مگر وفاقی دارالحکومت میںپاکستان عوامی تحریک اورتحریک انصاف کے ریڈ زون میں دھرنوں کی وجہ سے اس تقریب کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔ جونہی یہ مرحلہ مکمل ہوا چینی قیادت نے پاکستان مین ساز گار سیاسی ماھول کے لوت آنے پر وزیراعظم نوازشریف کو اپنے ہاں بلا کر ان 19 معاہدوں پر دستخط کر دیئے ہیں۔اب بحث طلب سوال یہ بھی ہے کہ قرض اور سرمایہ کاری میں فرق کس طرح برقرار رکھا جا سکتا ہے..؟حکومت نے اسے چائنا انویسٹمنٹ کا نام دیا ہے حالانکہ انویسٹمنٹ نفع نقصان کے برابر اصولوں کے مطابق ہوتی ہے جبکہ ان معاہدوں میں ایسا کوئی اصول کارفرما نہیں ہے۔
قرضوں کے بغیر معیشت کی بحالی اور 2 سال میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے مزید 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنا مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور کے بنیادی نکات ہیں۔حکومت نے حالیہ 18ماہ کے دوران واجب الادا قرض کے حجم میں کئی بلین ڈالر کا اضافہ کر دیاہے اور حکومت اس ضمن میںآئندہ 5سال کے لئے نئے معاہدے کر چکی ہے۔ جن میں 4.0بلین ڈالر کا ایشیائی ترقیاتی بنک سے معاہدہ اور 12بلین ڈالر کے ورلڈ بنک سے معاہدے شامل ہیں۔ اب چین سے سرمایہ کاری کے نام پر 42ارب ڈالر کے معاہدے کو اگر شامل کریں تو حکومت اب تک کل 75.7بلین ڈالر کے قرضے لے چکی ہے۔
پاکستان میںمادی اور انسانی وسائل کی بہتات ہونے کے باوجود ملک سے غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی ،توانائی کے بحران ختم نہیں ہو سے۔ 60فیصد آبادی تقریبا 12 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے افلاس کی گہرائیوں میں گر ے ہوئے ہیں۔یہ معاشی بحران قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن گیاہے۔چند ماہ قبل عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے حکومت پاکستان کو خبردار کیاگیاہے کہ پاکستانی معیشت ہائی رسک پر ہے۔ معاشی صورت حال کو خدشات لا حق ہیںکیونکہ صحب حیثیت اور دولت مند حضرات ٹیکسوں کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف عوام کی بڑی تعداد دو وقت کی روٹی سے محروم اور نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں۔ریونیوجمع کرنے کے لیے وفاقی حکومت کا بلاواسطہ کی بجائے بالواسطہ ٹیکسیوںپر زیادہ انحصار کرنے کی وجہ سے معاشی زوال کا تمام بوجھ غریب اور مڈل کلاس پر آگیاہے۔ مالدار لوگ صرف خانہ پری کے لیے اپنی آمدنی پر برائے نام ٹیکس دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن لیگ نے اپنے انتخابی منشور میں سرکاری اور نجی شعبے میں صرف 30 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے کیا وعدہ کیا تھا جبکہ چین سے معاہدوں میں 10لاکھ افراد کو روزگار دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
حکومتی جماعت نے اپنے جس منشور پر مینڈیٹ حاصل کیاتھا۔ اس میں توانائی کابحران حل کرنے ، سرمایہ کاری کے لیے ماحول ساز گار بنانے،براہ راست ٹیکسوں سے آمدنی میں اضافہ اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار کم کرنے اور سرمایہ کاری کے لیے ماحول سازگار بنانے کا وعدہ کیاگیا تھا لیکن اس حوالے سے ان کے عملی اقدامات کسی بھی مثبت ڈائریکشن سے محروم نظر آتے ہیں۔ بھارت نے آئی ایم ایف سے جان چھڑالی ہے ، خدا کرے کہ ہماری بھی جان چھوٹ جائے۔ ہر حکومت آئی ایم ایف سے قرض کی اقساط حاصل کرکے وقت گزارلینے میں کامیاب رہتی ہے۔ جبکہ عام شہری کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوچکاہے۔ بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اس بے دردی سے اضافہ ہوا ہے کہ غریب آدمی پیٹ بھر کر روٹی کھانے کے قابل نہیں رہا۔ صرف چھے مہینے میں آٹا 50روپے فی کلو سے تجاوز کر گیا،آلو اور پیاز غریبوں کی سبزی تھی وہ بھی ان کی دسترس میں نہیں ہے۔
اگرچہ بجلی ، گیس کی قلت اب بھی موجود ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ کمی سے عوام کو کوئی زیادہ مالی منفعت حاصل نہ ہو سکی ہے۔ کارخانوں، کی شفٹوں میں آنیوالی بندش سے بے روز گار ی میں اضافہ کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ پاکستانی ایکسپورٹرز اپنے آرڈر ز پورے کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی آبادی اس وقت 18کروڑ سے زائد ہے۔ جس میں سے آدھی سے زیادہ آبادی 30سال سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد دو کروڑ ہے۔ لیکن حکومت نے ایک لاکھ نوجوانوں کے لیے قرض کااعلان کیاہے جو بیس لاکھ روپے تک کے قرض سے کاروبار شروع کرسکیں گے۔ یہ رقم کہاں سے آئے گی ؟ اندازہ ہے کہ 100ارب روپے کے کرنسی نوٹ چھاپے جائیں گے۔ جس سے روپے کی قیمت کم ہوگی اور مہنگائی زیادہ رفتار سے بڑھے گی۔ آٹھ فی صد شرح سود پر اس قرض کامطلب ہے کہ اس سے ہونے والے کاروبار کی کم ازکم آمدنی پچاس ہزار روپے ماہانہ ہو۔ جو اس کساد بازار ی میں ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔
صنعت کاروں اور تاجروں کو نہ امن مل رہاہے نہ گیس اور بجلی مل رہی ہے۔ اغوا برائے تاوان کے کاروبار نے صنعت کاروں اور ٹریڈرز کو اپنے ہی ملک میں آزادانہ نقل و حمل سے محروم کرکے انہیں بیرون ملک سرمایہ کاری کی طرف دھکیل دیاہے۔صنعت کے ساتھ زراعت بھی زوال سے دوچار ہے۔ ٹھوس زرعی پالیسی ابھی تک نہیں بنائی گئی۔
ایک سے ایک بڑا جاگیردار اور سرمایہ دار پارلیمنٹ میں بیٹھاہے لیکن گزشتہ ماہ میں ارکان اسمبلی کی طرف سے داخل کئے گئے اثاثوں کے گوشوارے جھوٹ کا شرمناک پلندہ نظر آتے ہیں۔ جن کے مطابق ارب پتی لوگ ذاتی گھر اور گاڑی سے محروم بتائے گئے ہیں۔ ٹیکس کے نظام میں چوری اور کرپشن ہزاروں ارب روپے سالانہ سے زیادہ ہے۔پبلک سیکٹر کے قومی ادارے سینکڑوں ارب روپے سالانہ خسارہ دے رہے ہیں جہاں آمدنی کم اور خرچ زیادہ (Fiscal Deficit)کا اصول رائج ہے۔ برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہونے کی وجہ سے خسارہ پورا کرنے کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک قرضوں کی رفتار بڑھ گئی ہے۔ لگتاہے کہ حکومت نے ملک چلانے کے لیے قرض کو فرض سمجھ لیا ہے۔ پرانے قرضوں کا سینکڑوں ارب روپے سود اور اقساط اداکرنے کے لیے سینکڑوں ارب روپے کے نئے قرض لے کر قرضوں کابوجھ اتنا بڑھا لیاہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے ملک کی خود مختاری ہی گروی رکھ دی گئی ہے۔
افتخار شاہ بخاری