تحقیقاتی کمیٹیاں ذمہ داروں کا تعین کر سکیں گی؟
اولمپک کوالیفائنگ رائونڈ میں قومی ٹیم کی ناکامی کے بعد پاکستان ہاکی فیڈریشن اور قومی کھیل سے جڑے افراد پر خاصی تنقید ہوئی۔ پہلے پاکستان عالمی کپ سے باہر ہوا اور اب آئندہ برس ہونے والے اولمپک مقابلوں میں بھی شرکت کا اہل نہیں رہا اولمپک کوالیفائنگ رائونڈ میں ناکامی کے بعد ہاکی کا مستقبل سنوار نے لئے کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر بین الصوبائی رابطے کی وزارت نے قائم کی ہے۔ اعجاز چودھری اس کمیٹی کے کنوینر ہیں ان کے ساتھ سپورٹس ایڈمنسٹریٹرز اور ہاکی کے کھلاڑی بھی شامل ہیں یہ کمیٹی ابتدائی کام مکمل کر چکی ہے۔ اس تحقیقاتی کمیٹی نے حالات و واقعات کا جائزہ لے کر بیانات قلمند کرنے ہیں اور پھر اپنی تجاویز و سفارشات پر مبنی رپورٹ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے حضور پیش کرنے کے فرائض انجام دئیے ہیں۔ دوسری تحقیقاتی کمیٹی پاکستان ہاکی فیڈریشن نے اولمپئن شاہد علی خان کی سربراہی میں قائم کی ہے۔ اس کمیٹی کا کام بھی جاری ہے۔ کھلاڑیوں اور آفیشلز سے بیانات لئے جا رہے ہیں۔ سابق چیف سلیکٹر اصلاح الدین صدیقی اور سابق منیجر و ہیڈ کوچ شہباز شیخ نے اس کمیٹی کے روبرو پیش ہو کر بیانات دینے سے انکار کر دیا ہے۔ دونوں کمیٹیوں کے اجلاسوں کا سلسلہ جاری ہے حکومت پاکستان اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کی طرف سے قائم کردہ کمیٹیاں صرف کاغذی کارروائی ہیں۔ قومی کھیل کی تباہی کا سلسلہ کب سے شروع ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے۔ حالیہ نتائج کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ قومی کھیل کی بدحالی میں کن افراد میں منفی کردار ادا کیا ہے۔ یہ سب روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ کمیٹیاں صرف اورصرف وقت کا ضیاع ہیں۔ اصل معاملے سے توجہ ہٹانے کا بہانہ ہیں حکومتی سطح پر کمیٹی اگر اس لئے قائم کی گئی ہے کہ اس کی بنیاد پر وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کچھ ایسے افراد کو سائیڈ لائن کرنا چاہتے ہیں جنہیں بظاہر وہ پسند نہیں کرتے تو پھر حکومت سے یہ کون پوچھے بلکہ صرف موجودہ نہیں ماضی میں حکومتوں میں شامل اہم افراد سے یہ کون پوچھے گا کہ ہاکی کھلاڑیوں کے سپورٹس بنیاد پر تعلیمی اداروں میں داخل اور پھر حکومتی اداروں میں کھلاڑیوں کی ملازمتوں پر پابندی کا ذمہ دار کون ہے۔ کیا ان سب کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ موجودہ حکومت کی ہی بات کر لیں تو اس نے کون سا تیر ما را ہے۔ قومی کھیل کی بہتری کے لئے ٹیم کے کھلاڑیوں ایشیئن گیمز اور چیمپئنز ٹرافی کا فائنل کھیل کر آئے لیکن اس کارکردگی کے باوجود بھی انہیں ایوان وزیراعظم سے ملاقات کی تاریخیں ہی ملتی رہیں۔ وزیراعظم ہائوس کے سب سے طاقتور، اور بااثر عارضی مکین سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ کھلاڑی آج بھی بے یارومددگار ہیں۔ اب حکومت کا نوٹس لینا بے معنی اگر واقعی حقیقی معنوں میں نیک نیتی کے ساتھ کچ کرنا ہے تو پھر بنیادی مسائل کے حل کی طرف جانا ہو گا۔ صرف چہرے بدلنے سے مسائل حل ہونے کی امید رکھنا درست نہیں۔ نظام کی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے دوسری طرف ہاکی فیڈریشن کی اپنی کمیٹی ہے کوئی پوچھے اس کی کیا ضرورت تھی۔ کیا فیڈریشن کے صدر، سیکرٹری اور دیگر ذمہ داران نہیں جانتے کہ ناکامی کی وجوہات کیا ہیں۔ بلاوجہ تماشا لگایا ہوا ہے۔ حکومتوں کے قومی کھیل کی تباہی میں حصہ ڈالا ہے۔ تو ہاکی سے جڑے افراد نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی سب نے ہاکی کے میرے بھرے باغ کو اجاڑنے کو نیکی سمجھتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ عہدیداروں کو بھی برالذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا اور ماضی میں جو کوتاہیاں اور ذمہ داروں نے جو غلط فیصلے کئے ہیں وہ اسی کھیل کی تباہی کے برابر کے ذمہ دار ہیں جہاں تک تعلق کھلاڑیوں کا ہے تو وہ بھی سارا ملبہ فنڈ زیر ڈالنے کے بجائے احتساب خود کریں گول ’’مس‘‘ کر کے روح افزا اور نان چنے کو ذمہ دار مت ٹھہراتیں کھیل کے میدان کی غلطیوں کو فنڈز سے مت جوڑیں ہاکی کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے تو جس طرح تباہی میں سب کا کردار ہے اسی طرح ترقی بولے جانے کے لئے بھی سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ وزیراعظم سے لے کر ہاکی فیڈریشن کے نائب قاصد تک سب اپنا فرض ادا کریں تو بہتری ضرور ہو گی۔
حافظ محمد عمران