Published On: Tue, Feb 3rd, 2015

علی سفیان آفاقی سب کو روتا چھوڑ گئے

Share This
Tags
آفاقی کا کیریئر بطور مصنف، ادیب، ہدایتکار، فلمساز، کہانی نویس، مکالمہ نگار اور فیملی میگزین کے ایڈیٹر کے طور پر 52سال پر محیط ہے
کون جانتا تھا کہ جس شخصیت نے مجھے حرف حرف لکھنا سکھایا ایک دن مجھے اسی شخصیت کے بارے میں لکھنا ہو گا۔آج اگر میں حرف و لفظ کی حرمت کا پاس رکھنےafaqi میں کامیاب قراردی جا سکتی ہوں تو اس میں نوائے وقت کے ساتھ علی سفیان آفاقی صاحب کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ صحافت میری منزل نہیں تھی کہ مجھے تو ایم ایس سی کر کے لیکچرار بننا تھا لیکن کسی جاننے والے نے فارغ اوقات میں اخبار یا میگزین کیلئے کچھ لکھنے کا مشورہ دیا اور آفاقی صاحب کے پاس روانہ کردیا۔
جب میں ایڈیٹر فیملی میگزین علی سفیان آفاقی سے ملی تو میں نے ان کو صاف صاف بتا دیا کہ مجھے صحافت کی الف ب تک نہیں آتی لیکن اگر مجھے کوئی اسائنمنٹ دی جاتی ہے تو میں اسے ایک چیلنج سمجھ کر پورا کرنے کی کوشش کروں گی اور اگر میری یہ کوشش آپ کی نظر میں کامیاب ٹھہری توآپ مجھے سٹاف کا حصہ بنا لیجئے بسورتِ دیگر مجھے کوئی افسوس یا گلہ نہیں ہوگا۔
انہوں مجھے بیوٹی پارلرز پر فیچر کی اسائنمنٹ دی۔ میں اگلے دن اسائنمنٹ مکمل کر کے ان کے پاس لے گئی اور انہوں نے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا آپ کی تحریر اگرچہ ابھی نا پختہ ہے لیکن آپ کی کوشش بہت اچھی ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ بہت جلد لکھنا سیکھ جائیں گی۔ آپ کل سے آفس آ نا شروع کر دیں۔ مجھے اگلے ہی دن سینٹر اور سرورق کے لئے ماڈلز کے فوٹو شوٹس کے ساتھ ساتھ خواتین کے صفحات کی پروڈکشن اور ان صفحات کیلئے لکھنے کی ذمہ داری دے دی گئی۔ میں نے چونکہ صحافت کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا تھا اس لیے اس چیلنج سے عہدہ براء ہونے کیلئے میں نے دن رات محنت کی۔ آفاقی صاحب نے میری تحریری صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا، مجھے صحافت کی دنیا میں قدم رکھے ابھی تین چار ماہ کا ہی عرصہ ہوا تھا کہ مجھے میاں نوازشریف کی فیملی انٹرویو کرنے کی اسائنمنٹ مل گئی جو صحافت میں کسی نوارد لیڈی رپورٹر کے لئے خاصا مشکل کام تھا اور کچھ لوگ تو اسے ناممکن سمجھ رہے تھے۔ بہرحال یہ اسائنمنٹ بھی میرے لئے چیلنج اور میری صلاحیتوں کا امتحان تھی۔ میری کوشش، اللہ کی مدد اور آفاقی صاحب کی سرپرستی کے طفیل میں نے میاں نوازشریف کا پہلا فیملی فیچر مکمل کر لیا۔
اس فیملی فیچر کے ساتھ ہی فیملی میگزین میں ایک نیا سلسلہ متعارف ہو گیا جو آج تک جاری ہے اور فیملی میگزین کو دیگر معاصر جرائد سے ممتاز کرتا ہے۔ میاں نوازشریف پہلی بار وزیراعظم پاکستان بنے تھے اور جس دن ان کی فیملی کا انٹرویو تھا اْسی روز شام چار بجے ان کی حلف برداری کی تقریب تھی۔ خیر جب میں میاں صاحب کی والدہ، بہن، بیگم اور بچوں کا انٹرویو ریکارڈ کر کے دفتر لے آئی تو آفاقی صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے کہا اسے فوری لکھو۔ میں نے ساری رات 63 صفحات پر مشتمل وہ انٹرویو لکھا جو اگلے دن ہی کمپوز اور ڈیزائن ہو گیا۔ ان کی حوصلہ افزائی کے بعد چیلنج قبول کرنا ایک عادت سی بن گئی۔ ایک محاورہ مشہور ہے ’’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘‘ مگر میں علی سفیان آفاقی کی صحافتی صلاحیتوں اور پروفیشنلزم کے حوالے سے کہوں گی کہ ’’جو علی سفیان آفاقی کے ساتھ چل گیا وہ بن گیا۔‘‘
آفاقی صاحب سخت ترین ایڈیٹر تھے۔ اپنے سٹاف کو قائداعظم کے اس اصول ’’کام ،کام اور کام‘‘ پر کاربند رہنے کی تلقین کرتے بلکہ اس پر عمل کروانے کا گْر اور ہْنر بھی خوب جانتے تھے۔ ہفت روز فیملی میگزین کے آفس کو انہوں نے ایک خاندان کی طرح رکھا اور سٹاف کے ہر رکن میں کام کے حوالے سے پروفیشنلزم بیدار کیا۔
آفاقی صاحب نفیس اور وضع دار انسان تھے لیکن ان کے مزاج میں ضد اور غصیلا پن بھی موجود تھا۔ بنیادی طور پر انتہائی ہمدرد انسان تھے لیکن اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے قائل نہیں تھے۔ اپنے اصول نہ خود توڑتے تھے اور نہ ہی کسی اور کو اس بات کی اجازت دیتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ مجھے اپنی بیٹی کا د رجہ دیا اور میں نے بھی ایک بیٹی کی طرح ان کی فرمانبرداری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ وہ میرے منہ پر میرے کام کی تعریف بہت ہی کم کرتے تھے مگر میری غیر موجودگی میں دوسروں کے سامنے میرے کام کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے تھے۔ جون 2013ء میں میرا تبادلہ فیملی میگزین سے سنڈے میگزین میں ہو گیا تو میرے بعد نئے آنے والے لوگوں کو میٹنگ میں میرے کام کا حوالہ دے کر میری تعریف کیا کرتے اور اس خواہش کا اظہار کرتے کہ ان کا باقی سٹاف بھی میری طرح کام کرے۔ جب میں جنازہ کے روز ان کے گھر گئی تو ان کی بیٹی پارو نے اپنے خاندان میں میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا ’’یہ ہیں وہ فرزانہ جن کی مثالیں پاپا ہمیں دیا کرتے تھے۔‘‘
آفاقی صاحب نے صحافتی اصول سکھاتے ہوئے مجھے کہا: ’’صحافی کو بولڈ ہونا چاہئے اس کو کسی شخصیت سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ وہ ہمیں ہمیشہ نمبر ون پوزیشن پر رہنے کی تاکید کرتے اور فرنٹ لائن پر کھیلنے کی نصیحت کیا کرتے تھے۔ اْن کا کہنا تھا کہ ایسے انٹرویو کرو کہ آپ کے اس کام کو سراہا جائے۔ وہ ہمیشہ ہمیں منفرد قسم کا کام کرنے کی تاکید کرتے تھے۔ وہ مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ جو آرٹسٹ اور ماڈل آپ کے ساتھ طے شدہ وقت پر فوٹو سیشن نہیں کراتی یا وقت پر نہیں آتی اس کا شوٹ کینسل کر دیاکریں۔
علی سفیان آفاقی 25 سال ادارہ نوائے وقت سے منسلک رہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ نوائے وقت میں سلور جوبلی کرنے کے بعد اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔ وہ اپنے کام میں پروفیشنل لوگوں کو پسند کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ میں جب بھی کسی سینئر آرٹسٹ اور شوبز سے منسلک لوگوں کا انٹرویو کرنے جاتی سب لوگ علی سفیان آفاقی کے فلمی دنیا میں گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کوئی نہ واقعہ ضرور سناتے جن میں زیبا بیگم، محمد علی، شمیم آراء، دیبا بیگم، زریں پنا، جمشید ظفر، بابرہ شریف، سلمیٰ آغا، اسلم ڈار، غلام محی الدین، قوی خان، طارق عزیز، ندیم اور شاہد، خواجہ پرویز، اسد بخاری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔۔ زیبا بیگم جب بھی کہیں ملتیں تو مجھے دیکھتے ہی پوچھتیں فرزانہ آفاقی بھائی کا کیا حال ہے۔ ایڈیٹر علی سفیان آفاقی نے مجھ سے شوبز میں اتنا زیادہ کام کروایا کہ ایک وقت آیا کہ وہ خود کہنا شروع ہو گئے کہ فلمی دنیا میں مجھ سے زیادہ اب لوگ فرزانہ کو جانتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں شوبز کی دنیا ہو یا سیاسی حلقہ میں نے ہمیشہ مشکل اور چیلنجنگ کام کو ہی کرنے کو ترجیح دی اور یہ سب میں نے علی سفیان آفاقی کی سرپرستی اور شاگردی اختیار کر کے ہی سیکھا ہے۔

آفاقی نے شباب کیرانوی کی شراکت میں فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ بنائی اور پہلی بار فلم کی کہانی، مکالمے اور منظرنامہ لکھا۔ 1958ء میں وہ کل وقتی طور پر فلم سے وابستہ ہو گئے اور فلم ’’جنگلی‘‘ کا سکرپٹ لکھا۔ 1965ئمیں بطور فلمساز و مصنف فلم ’’کنیز‘‘ بنائی۔ 1972ء میں مصنف، فلمساز اور ہدایتکار کے طور پر فلم ’’آس‘‘ بنائی۔ اس کے بعد بھی متعدد فلمیں بنائیں اور ڈائریکٹ کیں۔ لاہور سے شام کا اخبار ’’نوروز‘‘ نکالا جو کم و بیش ایک سال کے بعد بند کردیا گیا

علی سفیان آفاقی 52 سال صحافت کی دنیا سے وابستہ رہے اور 82 برس کی عمر میں اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔ وہ جسمانی طور پر بڑھاپے میں قدم رکھ چکے تھے مگر ان کا ذہن اس عمر میں بھی جوان تھا۔ ہم نے ان کو ہر وقت لکھتے اور پڑھتے ہی دیکھا۔ 82برس کی عمر میں بھی ان کی یادداشت ٹھیک تھی اور کام کرکے ان کا ذہن تھکتا نہیں تھا۔ وہ لکھنے پڑھنے سے تازہ دم ہو جاتے تھے۔ وہ اپنے کام میں پرفیکٹ تھے اور اپنے سٹاف کو بھی ایسا دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ہفت روزہ فیملی میگزین کے باغبان تھے۔ انہو ں نے ہمیشہ ایڈمنسٹریشن کے سامنے نہ صرف اپنے سٹاف کے حق میں بات کی بلکہ ان کا حق بھی ان کو دلوایا۔ اسی طرح سٹاف کو بھی ایمانداری سے کام کرنے کی تلقین کی۔ علی سفیان ا?فاقی ایک عہد تھا جو اب تہہ خاک سو گیا۔صحافت اور فلمی دنیا کے لیے انکی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
مصنف، ادیب، ہدایتکار، فلمساز، کہانی نویس، مکالمہ نگار اور ہفت روزہ فیملی میگزین کے ایڈیٹر علی سفیان آفاقی کا صحافتی کیریئر 52سال پر محیط ہے۔ اس عرصہ میں انہیں نوائے وقت کے بانی حمید نظامی ان کے بعد ڈاکٹر مجید نظامی اور پھر محترمہ رمیزہ نظامی کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ 1957ء میں انہوں نے شباب کیرانوی کی شراکت میں فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ بنائی اور پہلی بار فلم کی کہانی، مکالمے اور منظرنامہ لکھا۔ 1958ء میں وہ کل وقتی طور پر فلم سے وابستہ ہو گئے اور فلم ’’جنگلی‘‘ کا سکرپٹ لکھا۔ 1965ئمیں بطور فلمساز و مصنف فلم ’’کنیز‘‘ بنائی۔ 1972ء میں مصنف، فلمساز اور ہدایتکار کے طور پر فلم ’’آس‘‘ بنائی۔ اس کے بعد بھی متعدد فلمیں بنائیں اور ڈائریکٹ کیں۔ لاہور سے شام کا اخبار ’’نوروز‘‘ نکالا جو کم و بیش ایک سال کے بعد بند کردیا گیا۔ 1990ء میں ادارہ نوائے وقت کے اپنی نوعیت کے پہلے ہفت روزہ فیملی میگزین کے ایڈیٹر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں اور تا دمِ آخر یہ فرض نبھاتے چلے گئے۔ انہوں نے درجنوں فلموں کی کہانیاں لکھیں کئی ایک فلموں کو ڈائریکٹ بھی کیا۔ انہوں نے مختلف فلموں کے فلمساز مصنف اور ہدایتکار کے طور پر نگار، ایوارڈز، گریجوایٹ ایوارڈز، فلم کرٹیکس ایوارڈ، نگار ملینیم ایوارڈز سمیت دیگر بہت سے قومی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ وہ الفا کیورٹ فلم ایوارڈ کی جیوری کے رکن، ایسٹ اینڈ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ ہوائی (امریکہ) کے تاحیات رکن، پانچ مرتبہ چیئرمین پاکستان فلم رائٹرز ایسوسی ایشن رہے۔ پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین رہے۔ پاکستان فلم جرنلسٹس ایسوسی ایشن پاکستان فلم ڈائریکٹر ایسوسی ایشن اور لاہور پریس کلب کے تاحیات رکن تھے۔ ان کی 28 کے قریب مختلف تصایف ہیں جن میں سفرنامہ اور کتابیں شامل ہیں۔
فرزانہ چوہدری

Leave a comment