کیا انسان واقعی چاند پر اترا؟ناسا کے راز
امریکی خلائی ادارہ انسان کے چاند پہ اترنے کی سب سے اہم ویڈیو ضائع کرچکا ہے۔صرف ویڈیوز ہی نہیں بلکہ بہت سی تصاویر اور چاند سے اکٹھے کیے گئے پتھروں کے نمونے بھی ’’گم‘‘ ہو چکے ہیں۔ اتنی صفائی سے تو کوئی قتل کے بعد ثبوت نہیں مٹاتا جتنی صفائی سے ناسا نے اپنی ہی ایک اہم ترین کامیابی کے ثبوت مٹائے یا ضائع کردییے
یہ 20 جولائی 1969 کا دن تھا۔ پوری دنیا کی نظریں ٹی وی سکرینوں پہ جمی ہوئیں تھیں۔ نیل آرمسڑانگ نامی امریکن خلا باز چاند کی سطح پہ پہلا انسانی قدم رکھتا ہے اور نیل آرمسڑانگ اس تاریخی لمحے کو یوں بیان کرتا ہے کہ ’’بے شک یہ انسان کا ایک چھوٹا سا قدم لیکن نسل انسانی کے لیے ایک بہت بڑی چھلانگ ہے‘‘۔
باقی دنیا کا تو پتا نہیں مگر پاکستان میں اس واقعے کا یہ اثر ہوا کہ والدین اپنی نکمی اولادوں کو ڈانٹنے کے لیے اس طرح کے فقرے استعمال کرنے شروع ہو چکے تھے کہ ’’دنیا چاند پہ پہنچ چکی ہے اور یہ نکما سارا دن سویا رہتا ہے ‘‘۔
امریکی اس کامیابی پہ پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اسوقت کے امریکی ٹی وی شوز میں ایسی باتیں ہورہی تھیں کہ اب بہت جلد اردگرد کے سیاروں کو بھی چند سالوں میں تسخیر کرلیا جائے گا اور وہاں انسانی بستیاں بسائی جائیں گی۔اگر اس دور کے امریکی اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو ان میں ایسے آرٹیکلز چھپ رہے تھے جن میں کہا جارہا تھا کہ اگلے بیس سال تک عام انسان بھی چاند کا سفر کرنے کا اہل ہو جائے گا اور وہ وقت دور نہیں جب ہم گرمیوں کی چھٹیاں چاند پہ منایا کریں گے۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا چاند کی تسخیر کو کئی دہائیاں گزر گئیں مگر نہ تو کسی سیارے پہ انسانی بستیاں بسائی جا سکیں اور نہ چاند پہ گرمیوں کی چھٹیاں منانے کا خواب پورا ہوسکا۔
ایک سروے کے مطابق چھ فیصد امریکی اور بیس فیصد روسی آج بھی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ بیس جولائی 1969کو امریکی خلائی ادارے ناسا کا چاند پہ اترنا ایک فراڈ تھا۔ اس نظریے کے مطابق اس دور میں روس اور امریکا کی خلائی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ اس سے پہلے 13 ستمبر 1959کو روس بغیر کسی انسان کے اپنا خلائی جہاز Luna 2 چاند کی سطح پہ اتار کر دنیا بھر میں داد و تحسین حاصل کرچکا تھا لہذا اب امریکہ کے لیے دنیا میں عزت بے عزتی کا مسئلہ بن چکا تھا کہ وہ اس سے بڑھ کر کوئی کارنامہ سرانجام دے تو اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ہالی وڈ کے کسی خفیہ اسٹوڈیو میں یا بعض ماہرین کے مطابق شگاگو کے ایریا 51 میں سیٹ لگا کر انسان کے چاند پہ اترنے کا منظر فلمایا گیا۔ اس سلسلے میں بہت سے سوالات اور ثبوت ہیں جو کہ امریکی دعووں کو مشکوک اور ایسی تھیوریوں کو شک کا ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
مثلاً20 جولائی 1969 کو نیل آرمسڑانگ نے چاند کی سطح پہ قدم رکھا تو پوری دنیا نے یہ منظر ٹی وی اسکرینوں پہ دیکھا۔ لیکن امریکی خلائی ادارہ یہ اہم ترین ٹی وی ٹرانسمیشن ضائع کرچکا ہے۔ جی ہاں آج اگر آپ 1947 میں بنی فلمیں دیکھنا چاہیں تو تھوڑی کوشش سے انکے اصل پرنٹ تک دستیاب ہو جاتے ہیں حتی کہ بابائے قوم قائداعظم کی بہت سی ویڈیوز اب تک با آسانی دستیاب ہیں لیکن امریکی خلائی ادارہ انسان کے چاند پہ اترنے کی سب سے اہم ویڈیو ضائع کرچکا ہے۔صرف ویڈیوز ہی نہیں بلکہ بہت سی تصاویر اور چاند سے اکٹھے کیے گئے پتھروں کے نمونے بھی ’’گم‘‘ ہو چکے ہیں۔ اتنی صفائی سے تو کوئی قتل کے بعد ثبوت نہیں مٹاتا جتنی صفائی سے ناسا نے اپنی ہی ایک اہم ترین کامیابی کے ثبوت مٹائے یا ضائع کردیئے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی مگر حیرت انگیز طور پہ آج تک امریکہ میں اس پہ کوئی انکوائری بھی نہیں ہوئی کہ انسانی تاریخ کی اتنی اہم ترین کامیابی کے اتنے اہم ترین ثبو ت کیسے ضائع ہوگئے ؟
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ چاند کے جس ایریے کو دکھایا جارہا ہے وہاں بڑی زبردست لائٹنگ نظر آرہی ہے بالکل جیسے کسی اسٹیج پہ کوئی فنکار پرفام کرتا ہے تو صرف اسٹیج پہ لائٹ ہوتی ہے اور باقی ہال کی بتیاں بجھا دی جاتی ہیں ایسے ہی اگر نیل آرمسٹرانگ کی چاند پہ چہل قدمی کی تصاویر کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے جتنا ایریا دکھانا مقصود ہے وہاں پہ بہترین لائیٹ ہے جبکہ باقی جگہوں پہ اندھیرا ہے۔
اس سلسلے میں ناسا کا موقف یہ ہے کہ یہ سب جھوٹی سازشی تھیوریاں ہیں۔ چاند کے خلائی مشن سے تقریبا چار لاکھ لوگ وابستہ تھے۔ کیا ان چار لاکھ لوگوں نے پوری دنیا کو بیوقوف بنایا ؟؟ اور پھر بہت سے غیر جانبدار خلائی ادارے اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ 20 جو لائی 1969کو واقعی امریکی خلاباز نیل آرمسڑانگ نے چاند کی سطح پہ قدم رکھا تھا۔ اسکے جواب میں اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ 20 جو لائی 1969 کو ایک خلائی جہاز چاند کے سفر کے لیے اڑا مگر کیا وہ چاند تک پہنچا۔۔۔ یا نہیں؟ کیا انسان نے واقعی چاند پہ قدم رکھا یا نہیں یہ بحث پہلی دفعہ 1974 میں شروع ہوئی جب ایک امریکی خلائی ماہر Bill Kaysing کی کتاب
We Never Went to the Moon: America146s Thirty Billion Dollar Swindle
جو کہ 1976 میں شائع ہوئی جس میں جاندار اور مدلل سائنسی بحث سے ثابت کیا گیا تھا کہ کوئی انسان چاند پہ نہیں اترا یہ سب روس کو خلائی دوڑ میں نیچا دکھانے کے لیے ایک ڈرامہ تھا۔
ایک اندازے کے مطابق ’’ دی فلیٹ سوسائٹی ارتھ ‘‘ وہ پہلا ادارہ تھا جس نے اس کاز کو سب سے پہلے اٹھایا تھا کہ ناسا نے دنیا کو بیوقوف بنایا اور بے تحاشا ڈالر ایک جھوٹے پراجیکٹ پہ جھونک دیئے۔
اس سلسلے میں جو سب سے حالیہ پیش رفت ہے وہ مشہور زمانہ فوکس نیوز کی ڈاکومنٹری ’’ڈڈ وی لینڈ آن دی مون ‘‘ ہے جو کہ 2001 میں منظر عام پہ آئی اور یوٹیوب پہ بھی دستیاب ہے اس میں بھی تسخیر چاند کے متعلق ایسے چونکا دینے والے سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کا جواب دینے سے ناسا کے ماہرین کتراتے ہیں۔
محمد عثمان فاروق
میرے خیال میں امریکہ دنیا کو بے وقوف بنا رہا ہے جو فلم ریلیز کی گئی ہے اس میں مٹی زمین کی مٹی جیسی ہے جبکہ چاند کی زمین پتھریلی ہے ۔ ۔ مٹی کو کسی مشین کے زریعے زورسے پھینکا گیا ہے ، دوسری بات کہ چاند پر ہوا نہیں ہے لیکن امریکی جھنڈا فلیگ لپرا رہا ہے تیسری اوعر اہم بات خلانورد بار بار اچھل کر واپس زمین کو ٹچ کررہا ہے یہ خاصیت صرف ہماری زمین میں ہے گریویٹی کی وجہ سے ہر چیز زمین پر واپس آجاتی ہے ، روشنی کا انتظام ظاہر کر رہا ہے کہ اسٹیج بنایا گیا تھا ، پہاڑوں کا انداز بتارہا ہے کہ زمینی پہاڑ ہیں
دراصل یہ امریکہ کے پہاڑی سلسلے میں فلمایا گیا ایک ڈرامہ تھا جس سے کروڑوں روپے کمائے گئے