این اے 122:جمہوریت کے اخلاقی اسباق اور سیاسی جنازے
لاہور کے وہ ضمنی انتخابات ہو گئے جو ایک ماہ سے زائد عرصے تک قوم کے اعصاب پر سوار رہے ۔ سیاسی جماعتوں کی مقابلے بازی اور میڈیا کی مہربانی سے لگ بھگ ایک ماہ تک ملک کے کونے کونے میں ضمنی انتخابات کا چرچہ رہا۔
وزیراعظم ہائوس سے رائیونڈ کے محلات اور بنی گالہ سے زمان پارک تک طاقت کے تمام مراکز دن رات این اے ایک سو بائیس کا معرکہ فتح کرنے میں لگے رہے۔ پیسہ پانی کی طرح بہا دیا گیا۔ وفاقی کابینہ اسلام آباد میں دفتروں کو تالے لگا کر لاہور میں بیٹھ گئی۔ تحریک انصاف کے بیرون ملک سرگرم کارکنوں اور رہنمائوں تک کو لاہور بلا لیا گیا۔ جب پولنگ ہوئی، نتائج آئے تو نہ نون جیتی نہ جنون ہارا ۔ ایسا نتیجہ آیا کہ سب دنگ رہ گئے۔
قومی اسیمبلی پر مسلم لیگ نون کے سردار ایاز صادق جیت گئے، دھاندلی کا شور مچانے والے عمران خان کے خفیہ ہتھیار علیم خان ہار گئے۔ صوبائی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف کے شعیب صدیقی جیت گئے اور مسلم لیگ نون کے محسن لطیف شریف خاندان کے قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود ہار گئے۔
توقع تھی کہ ایاز صادق بہت بڑے فرق سے جیتیں گے، فرق کم سے کم دو ہزار تیرہ سے تو دو گنا ہی ہوگا لیکن ایسا نہ ہوا ۔ مسلم لیگ نون کو تو قیادت کے جہیز میں آئے امیدوار کی فتح کا پختہ یقین تھا اس لئے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی ایک سو سینتالیس پر زور ہی نہیں لگایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صوبائی نشست تحریک انصاف کے شعیب صدیقی لے اڑے اور محسن لطیف منہ تکتے رہ گئے۔
کہا جاتا ہے کہ جیت بہرحال جیت ہوتی ہے چاہے ایک ووٹ سے ہو کہ ایک ہزار ووٹوں سے، لیکن ایسے انتخابات میں جو حقیقی جمہوری معیار، اصولوں اور ضابطوں پر پورے اترتے ہوں۔ جن انتخابات میں پاور، پیسہ، دھونس، دھاندلی، گالم گلوچ، گھٹیا ترین الزامات انتخابی مہم کی بنیاد ہوں، ووٹ خریدے جائیں، لوگوں کو ڈرایا، دھماکایا جائے ایسے انتخابات میں بھی اگر جیت صرف دو ہزار ووٹوں سے ہو تو یہ جیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پورا زور لگا کر بھی اگر قومی اسمبلی کے اپنے امیدوار کو بمشکل دو ہزار ووٹوں سے جتوا پائیں اور صوبائی اسمبلی کی نشست گنوا بھیٹیں تو یقینناً مسلم لیگ نون کی قیادت کے لئے لاہور کے یہ ضمنی انتخابات لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔
اسی طرح تحریک انصاف کو بھی سوچنا چاہئے کہ وہ سیاست کو کس ڈگر پر لے کر جا رہے ہیں۔ عمران خان نے جس تبدیلی کا نعرہ لگایا علیم خان کو ٹکٹ دے کر خود ہی اسی نعرے کا جنازہ نکالا، علیم خان کو ٹکٹ دینے کی سب سے بڑی وجہ ان کا دولتمند ہونا اور اسے بھی بڑی وجہ انتخابات میں بنا حساب دولت خرچ کرنے کا جگرہ ہونا تھا۔ علیم خان اپنے قائد کے اس اعتماد پر پورا اترے یعنی الیکشن مہم پر اربوں رپے لگائے۔ ووٹ خریدے، موٹر سائیکلیں، راشن بانٹتے رہے اور سڑکوں کو ہر طرف اپنے بینروں سے سجا دیا۔ سب کچھ کے باوجود وہ الیکشن نہ جیت سکے اور اپنی شکست کو اخلاقی فتح قرار دے رہے ہیں۔ ایسے انتخابات جن میں اخلاقیات اور ضابطہ اخلاق کے جنازے نکالے گئے ہوں ان کے نتیجے کو اخلاقی فتح قرار دینے کو اخلاقی دیوالیے پن کی انتہا ہی کہا جا سکتا ہے۔
علیم خان نے پیسہ لٹانے کی وہ تاریخ رقم کی ہے کہ دولت کے بل پر آگے بڑھنے والی مسلم لیگ نون بھی اس بار دنگ رہ گئی ۔ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ علیم خان کے پیسے کا مقابلہ مسلم لیگ نون، وفاقی اور پنجاب حکومتیں ملکر بھی نہ کر سکیں۔ عمران خان نے جب علیم خان کو این اے ایک سو بائیس پر ٹکٹ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا تو مسلم لیگ نون کی صفوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ کہا جاتا رہا کہ علیم خان تو قبضہ مافیہ ہیں۔ بدنام ہیں لوگ ان کو ووٹ نہیں دیں گے۔ عام لوگ یہاں تک صحافی بھی شروع شروع میں یہی سمجھتے رہے کہ علیم خان کو ٹکٹ دے کر عمران خان نے بہت بڑی غلطی کی اور اپنی بدترین شکست کا خود ہی اہتمام کر لیا ہے۔ لیکن جب نتیجہ سامنے آیا تو یہ سب اندازے، تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ علیم خان نے روپے پیسے کے اانبار لگا کر وہ کر دکھایا جو عمران خان اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں نہ کر سکے۔
اب انتخابات ہو گئے ہیں، جتنے جنازے نکلنے تھے نکل چکے، لیکن سب کچھ کے باوجود ایک بار پھر تحریک انصاف شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اس بار پولنگ سٹیشن پر فوج تعنیات تھی، بئلٹ باکسز فوجی جوانوں کی نگرانی میں لائے اور لے جائے گئے۔ اس لئے ڈبے بدلنے یا گنتی میں ہیر پھیر کا الزام نہیں لگایا جا رہا ۔ اب الزام لگایا جا رہا ہے کہ ووٹر فہرستیں تبدیل کر دی گئیں ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے تحریک انصاف خود پہلے اس بات کی تحقیقات کرے گی، ثبوت مل گئے تو الزام باضابطہ درج کیا جائے گا۔
چلیں تحریک انصاف کو یہ احساس تو ہوا کہ الزام لگانے کیلئے تھوڑے بہت ثبوت بھی ہونا ضروری ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف نے تو اتنا سیکھ لیا لیکن مسلم لیگ نون تو ابھی کچھ سیکھتی نظر نہیں آ رہی۔ لاہور کے انتخابات مسلم لیگ نون کیلئے بہت بڑا سبق ہیں۔ پوری قوت لگانے کے باوجود ہارتے ہارتے جیتنا اور پھر صوبائی نشست ہار جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کو بنیادی مسائل کا حل چاہئے، انصاف اور گڈ گورننس چاہئے صرف سیاسی چالاکیاں اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے کام نہیں چلے گا۔
لاہور کے ضمنی انتخابات سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ اس ملک میں الیکشن کمیشن برائے نام ہے، ایک ماہ تک لاہور شہر میں ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں لیکن الیکشن کمیشن کے حکام یہ کہتے رہ گئے کہ انہیں کہیں سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی، میڈیا بینروں سے لدی سڑکیں اور گلیاں دکھا دکھا کر پاگل ہو گیا لیکن رٹرننگ افسر فرماتے ہیں کہ انہیں کہیں بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نظر نہیں آئی۔ الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کیلئے لاہور کے ضمنی الیکشن ایک نمونہ ہیں، اس کا نوٹس لے کر قوانین اور ضابطہ اخلاق کو بہتر بنا کر عملدرآمد کیلئے کوئی طریقہ کار وضح نہ کیا گیا تو انتخابات کا عمل بے سود ہو جائے گا۔
لیکن اصل بات تو رہ ہی گئی ۔۔۔لاہور کے ضمنی انتخابات میں ایک جنازہ اور بھی نکلا اور وہ تھا پیپلز پارٹی کا ، جس کے امیدوار بئریسٹر عامر حسن نے کوئی آٹھ سو اور افتخار شاہد نے چھ سو کے قریب ووٹ لئے نتائج سے ثابت ہو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی شاید سبق حاصل کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے گنوار بیٹھی ہے پھر کون یاد کراواے کہ اس حلقے سے پی پی پی فتح یاب بھی ہوتی تھی۔ پیپلز پارٹی کے لیے اب یہ یقیناً عظمت رفتہ کی داسستانوں کے سوا کچھ نہیں۔
رپورٹ: امداد سومرو