جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ۔۔۔ نظام عدل پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا
گزشتہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات جس شدومد کے ساتھ لگے اور اس کی تحقیقات کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے جس جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا، دو روز قبل اس کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد حکومت کے حامی حلقوں میں جشن کی سی کیفیت ہے جبکہ عمران خان اور تحریک انصاف کے حامی کسی قدر سکتے کی کیفیت میں دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں انتخابی دھاندلی، ووٹوں کی خرید وفروخت، من پسند افسروں کی تقرری، نتائج میں تبدیلی یا یوں کہیے کہ کامیابی کے لیے ہر وہ طریقہ استعمال کیا جانا جو ممکن ہو ،کوئی نئی اور انہونی بات نہیں۔
مملکت خداد کی سب سے بڑی (اور سب سے بری) خصوصیت یہی ہے کہ یہاں سب چلتا ہے اور اس طرز عمل کو برداشت کرنے کی یہ قوم اس قدر عادی ہے کہ اب اس کے بغیر گزارہ بھی ممکن نہیں۔ 2013ءکے انتخابات سے قبل بھی تقریباً ہر الیکشن میں دھونس دھاندلی کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ ایک جماعت نے ان نتائج کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا، بات جلسے جلوسوں سے آگے بڑھ کر دھرنے تک جا پہنچی اور 126 دن کے طویل دھرنے کے بعد مبینہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے معزز ججوں پر مشتمل ایک جوڈیشل کمیشن قائم کر دیا گیا۔ اس جوڈیشل کمیشن کی فائنل رپورٹ کے متعلق قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس کے فیصلے سے پی ٹی آئی کو مایوسی ہوئی ہے تو ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ مذکورہ کمیشن قائم کرتے ہوئے اس کے لیے ٹرم آف ریفرنس کیا طے کیے گئے تھے؟ جن امور کی تحقیقات کے لیے حکومتی جماعت اور تحریک انصاف نے جو دائرہ کار طے کیا تھا، کمیشن نے اس کے مطابق ہی کام کیا ہے اور اس کے مطابق ہی فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب عوامی حلقوں میں اس فیصلے کے بعد ملا جلا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ زیادہ تر لوگوں نے اس فیصلے کو اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر قبول یا رد کیا ہے لیکن بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فیصلے نے پاکستان کے عدالتی اور قانونی نظام پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
ماضی میں بھی پاکستانی عدلیہ حکومت وقت کی حمایت میں فیصلے کرنے کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے بلکہ یہ وہ عدلیہ رہی ہے جس نے تاریخ میں پہلی بار نظریہ ضرورت بھی ”ایجاد“ کیا تھا۔ اس لیے موجودہ فیصلہ کوئی غیر متوقع امر نہیں۔ اس ریاست میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا محاورہ بھی پرانا ہوچکا ہے اور بعض حلقوں کا کہنا ہے یہاں لاٹھی والا بھینس ہی نہیں بلکہ بھینس کے مالک پر بھی حق ملکیت رکھتا ہے۔
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے پاکستان کے عدالتی نظام سے انصاف حاصل کرنے کے لیے حضرت نوحؑ کی عمر اور حضرت یعقوبؑ کا سا صبر چاہئیے جبکہ کچھ لوگ اس پر گرہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان اوصاف کے علاوہ قارون کی دولت بھی ضروری ہے۔ یاد رہے کہ 90 کی دہائی کے اوائل میں بھی جب صدر غلام اسحٰق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کی تھی تو سپریم کورٹ نے ان کی حکومت کو بحال کر دیا تھا جبکہ اس سے اڑھائی برس قبل عین انہی الزامات اور انہی آئینی اختیارات کے تحت ہٹائی گئی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بحال نہیں کیا گیا تھا۔ اس پر مرحومہ نے ”چمک“ کی پھبتی کسی جو آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ بہر حال یہ تو طے ہے کہ پاکستان کی عدلیہ ایک بار پھر سامنے نظر آنے والی کرپشن یا دھاندلی کو گرفت میں لانے میں ناکام رہی ہے لیکن اس کی ذمہ داری کسی جج کی پسند یا ناپسند پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ یہ ثبوت ہے ہمارے ناقص عدالتی اور قانونی نظام کا جس میں آپ کو صرف دلائل ہی نہیں، شواہد بھی خود مہیا کرنا پڑتے ہیں۔ اگر آپ مطلوبہ شواہد موجودہ قانون کے قواعد کے مطابق فراہم نہیں کر سکتے تو آپ کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو تحریک انصاف کے ساتھ ہوا ہے۔
اس ضمن میں ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ دنیا کے بے شمار ممالک نے وقت کے ساتھ ساتھ قوانین میں جدت پیدا کی ہے اور عدالتی نظام کو وقت کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے لیکن ہمارا قانوں آج بھی وہی ہے جو انگریزی راج کے وقت تھا۔ اس قانون کے تحت دہشت گرد آزادی کے ساتھ گھومتے ہیں اور معصوم لٹکائے جاتے ہیں کیوںکہ فیصلہ انہی شواہد کے تحت ہونا ہے جو قانون میں درج ہیں۔ اگر موجودہ قوانین اور عدالتی نظام میں تبدیلی یا جدت کی بات کی جائے تو یہ افسوسناک حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اس تبدیلی کی مخالفت نہ صرف بعض قانونی حلقے کرتے ہیں بلکہ سٹیٹس کو کی حامی جماعتیں بھی اس مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کا نقصان صرف عوام کا ہوتا جو برسوں تک عدالتوں کے چکر لگانے اور ذلت اٹھانے پر مجبور رہتے ہیں۔