اسٹیبلشمنٹ،کرپشن مافیاکی رسہ کشی کے بعد زرداری کی فوج کو دھمکیاں
پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے فوجی قیادت کو چیلنج کرکے، دھمکی دے کر ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا انتباہ دے کر اسٹیبلشمنٹ اور کرپشن مافیا کے درمیان رسہ کشی کی معمولی چنگاری کو ہوا دے کر تیز شعلوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ تاریخ میں ملک کے کسی بھی سیاسی لیڈر یا پھر کسی دشمن ملک کی فوج نے بھی اس طرح کی دھمکی کبھی نہیں دی۔ ماضی قریب میں اس طرح کی بلیک میلنگ امریکا کے ڈپٹی سیکریٹری خارجہ رچرڈ آرمیٹج نے کی تھی۔ انہوں نے 2001 میں کہا تھا کہ امریکا پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیل دے گا۔ سابق صدر اور جس فوج کو انہوں نے ٹکڑے کرنے کی دھمکی دی ہے اسی کے سابقہ سپریم کمانڈر کی طرف سے اس طرح کا بیان سامنے آنے کے بعد جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) کو اپنی اگلی چال کے حوالے سے انتہائی محتاط انداز سے غور کرنا ہوگا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ زرداری نے تنازع کو اس بلندی تک کیوں پہنچایا لیکن اشارے واضح ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما کو معلوم ہے کہ کیا کچھ داؤ پر لگا ہے اور یہ سارا ایکشن پلان کہاں جا رہا ہے۔ وہ آرمی چیف اور وزیراعظم کی موجودگی میں ہونے والے اپیکس کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ ان کے سندھ میں موجود وزیراعلی بھی اپیکس کمیٹی کے اجلاسوں اور عوامی اجتماعات میں فوج اور رینجرز کے حکام کی باتیں سنتے رہے ہیں اور اب تو سب ہی رینجرز کی جانب سے شروع کی جانے والی کارروائیاں دیکھ رہے ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ سمجھی جانے والی اقتصادی دہشت گردی کے خلاف فوج کا پلان جاری ہے اور اپنے عروج پر ہے۔ لہذا ایکشن پلان کے ابتدائی مرحلے پر، مسٹر زرداری نے خطرے پر قابو پانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ بڑی مچھلیوں کے جال میں پکڑے جانے سے قبل ہی لڑائی کی جائے، فی الحال یہ جال لینڈ مافیا، منی لانڈرنگ مافیا، بھتہ مافیا اور دیگر مافیاز کے گرد منڈلا رہا ہے۔ معاملہ بہت واضح ہے: جس شخص کا انگوٹھا کسی کے پاؤں (بوٹ) تلے آجائے تو وہ درد سے نکلنے والی چیخوں کو روک نہیں سکتا۔ لیکن مسٹر زرداری کا سیاسی بلڈوزر فوج سے زیادہ وفاقی حکومت کیلئے خطرہ بن رہا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کو یاد دہانی کرائی ہے کہ انہوں نے عمران خان کا ساتھ نہیں دیا ورنہ نئے انتخابات کب کے ہو چکے ہوتے۔ اب وہ یہ توقع کر رہے ہیں کہ نواز شریف ان کا ساتھ دیں گے فوج کا نہیں۔ یہ بہت بڑی توقع ہے۔ مسٹر نواز شریف کا جواب یہ طے کرے گا کہ معاملات کیا رخ اختیار کریں گے لیکن جنرل راحیل شریف کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ ہر اس شخص کو کچل دیں گے جو ان منصوبوں کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ جو کچھ بھی پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا ہے وہ صرف کھوکھلے الفاظ ہیں کیونکہ ان میں حقیقت میں نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ مثلا انہوں نے کہا ہے کہ وہ جب چاہیں اور جب تک چاہیں فاٹا سے کراچی تک پورا ملک بند کرا دیں گے۔ ایسا صرف سوچ میں ہی ہوسکتا ہے۔ کے پی کے میں ہونے والے حالیہ الیکشن میں ان کی جماعت کو صوبے سے نکال باہر کر دیا گیا ہے اور اے این پی اور جے یو آئی (ف) جیسی مقامی جماعتوں کی حمایت کے باوجود جب انہوں نے احتجاجی مہم چلانے کی کوشش کی تو غبارے سے ہوا نکل گئی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو پارلیمانی سیاست سے نکال باہر کر دیا گیا ہے اور اگر تھوڑا بہت کچھ ہے بھی تو انہیں فوج، جس کا زیادہ تر حصہ پنجاب سے ہے، کے خلاف متحرک کرنا بہت مشکل ہے۔ سندھ میں ممکن ہے کہ کچھ علاقوں میں ان کا اثر رسوخ ہو لیکن صرف یہی وہ علاقے ہوں گے۔ وہ کچھ سڑکیں بلاک کر ا سکتے ہیں اور انہوں نے پاکستان کھپے کارڈ ذکر بھی کیا ہے۔ یہ کارڈ بھی اب گھسا پٹا ہو چکا ہے اور اسے کہیں بھی فوج کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ کراچی میں ان کی جماعت کو کرپشن کے حوالے سے سب سے بڑی چارج شیٹ کا سامنا ہے اور ان کے لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے اور اب وہ راز بھی اگل رہے ہیں۔ کچھ تو پہلے ہی ملک چھوڑنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جبکہ صرف ایک لڑکی ایان علی نے بلاول ہاؤس میں اس قدر افراتفری مچا رکھی ہے کہ زرداری کے پرانے وکیل اور سابق چیئرمین سینیٹ فاروق نائیک اور پیپلز پارٹی کے سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ جیسے سینئر رہنماؤں کو ایسی لڑکی کے دفاع کیلئے مقرر کیا گیا ہے جو نسبتا ڈالروں کی ایک چھوٹی کھیپ کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے۔ یقینا پکڑے جانے والے پانچ لاکھ ڈالرز کے مقابلے میں جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ ایان علی کیا کچھ جانتی ہے اور اسے کن باتوں کا علم ہے۔ لہذا پیپلز پارٹی والوں کی پریشانی جائزہے۔ پریشانی اور افراتفری کے اس ماحول میں، مسٹر زرداری کی جانب سے فوج اور رینجرز کے خلاف اتنا بڑا بول بولنا بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان باتوں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ اس طرح کے رد عمل سے نمٹنے کیلئے ایک پلان پر پہلے ہی غور کیا جا رہا ہے۔ جو بات مسٹر زرداری بھول گئے وہ ان کی جانب سے آرمی ایکشن کیلئے دیا جانے والا وقت ہے۔ انہوں نے جنرل راحیل شریف کو تین سال کا وقت دیا لیکن جو بات وہ بھول گئے وہ یہ تھی کہ جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت کا آدھا حصہ پورا کر چکے ہیں اور اپنا مشن مکمل کرنے کیلئے ان کے پاس باقی صرف 18 ماہ ہیں۔ لہذا فوج کی جانب سے رد عمل کسی بھی شکل میں سامنے آئے وہ بھی تیز اور سخت ہوگا۔ یہ رد عمل سیاست کی لفظی جنگ کی طرح نہیں ہوگا بلکہ کرپٹ مافیاز اور ایسے سیاست دانوں کے خلاف ہوگا جو اس میں ملوث ہیں۔ جیسے یہ لوگ روایتی پولیس کے ڈرائنگ رومز کی سیر کریں گے اور بڑے بڑے ناموں سے پردہ اٹھائیں گے تو اس کے بعد مسٹر زرداری اور ان کے خاص لوگ سچ میں پریشان ہوجائیں گے۔ یہ بہت ہی بڑی بدقسمتی ہے کہ بینظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اس صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ لیکن بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے جس طرح کی قیادت ہمیں ملی ہے اس سے اس کے سوا اور کیا توقع کیا جا سکتی تھی۔
فیکٹ رپورٹ