کرپٹ مافیاز کے گرد گھیرا تنگ، سندھ میں بھونچال، سیاسی جماعتیں پریشان
سندھ میں کرپشن کیخلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور روزانہ گرفتاریاں ہو رہی ہیں اب تک سکھر پی پی کے رہنما محمد علی شیخ، فشرمین سوسائٹی کے وائس چیئرمین سلطان قمر صدیقی، سہون کے ٹی ایم اے ظہور شاہانی، تعلقہ افسر انفراسٹرکچر ادریس میمن سابق ایڈمنسٹریٹر رحمت اللہ میمن فشرمین سوسائٹی کے دو ڈپٹی ڈائریکٹر رانا محمد شاہد اور محمد خان چاچڑ سجاول کے ٹی ایم او ممتاز علی زرداری گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ سکھر کے ایک پٹرول پمپ کو سربمہر کر کے 2 ملازموں کو حراست میں لیا گیا ہے یہ پٹرول پمپ اخباری اطلاعات کے مطابق ایک ایم پی اے کا ہے جو ایرانی تیل فروخت کرتا تھا اور گزشتہ چھ ماہ میں اس پمپ کیلئے کسی کمپنی سے ایک لیٹر پٹرول نہیں خریدا گیا۔ نیب حکام اس سارے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ صوبے کے کم و بیش تمام میونسپل اداروں میں بڑے پیمانے پر گھپلے ہوئے ہیں جس میں تقرریاں تعیناتیاں، تنخواہوں کی رقوم کی خوردبرد، ٹھیکوں کے فنڈز میں بے قاعدگیاں شامل ہیں۔
سندھ کے سیکرٹری اطلاعات ذوالفقار شالوانی، ڈائریکٹر منصور راجپوت کمشنر شہید بے نظیر آباد ڈویژن غلام مصطفی پھل نے صوبائی وزیر علی مردان شاہ اور سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کی طرح عدالتوں سے حفاظتی ضمانت منظور کرا لی ہے ان کا موقف ہے کہ کچھ نہیں کیا۔ گرفتاری کا خدشہ عدالت نے پیر مظہر الحق کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں یہ بھی کہا کہ وہ نیب حکام سے تعاون کریں۔ نیب حکام نے صوبائی حکومت سے محکمہ تعلیم و ثقافت سے 600 لاپتہ گاڑیوں کی تفصیل مانگ لی ہے جو سرکاری افسروں ہی نہیں صحافیوں اور پارٹی رہنماؤں کے پاس بھی بتائی جاتی ہیں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے نیب حکام کو جو شکایتی مکتوب بھیجا تھا اس میں سابق وزرائ، سیکرٹریز اور کنسلٹنٹس کے پاس موجود گاڑیوں کی نشاندہی کی گئی تھی ان میں جنرل اینڈ سروسز اینڈ منسٹریشن کی 66، محکمہ تعلیم کی 86، محکمہ ثقافت کی 8 گاڑیوں کو گمشدہ بتایا گیا ہے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان محکموں سے حاصل شدہ گاڑیوں کو محکمانہ طریق کار کے تحت نمبر پلیٹیں تبدیل کرنے کے بعد سڑکوں پر چلانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ پلاٹوں کی چائنا کٹنگ سمیت بہت سے دیگر معاملات میں بھی سرکاری ملازم ملوث بتائے جاتے ہیں احتساب عدالت نے محکمہ اقلیت و ایکسائز کے سیکرٹری ڈاکٹر بدر جمیل میندھرو اور ڈائریکٹر اینٹی کرپشن خادم چنا کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کر دی ہے ان سے پوچھ گچھ جاری ہے اسی طرح ٹھٹھہ دادو، سجاول اضلاع میں محکمہ جنگلات کی 20 ہزار ایکڑ اراضی مختلف کمپنیوں کو گنے کی کاشت کے لیے دیئے جانے کا کیس بھی سندھ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہیں جہاں ان زمینوں سے بے دخل افراد نے موقف اپنایا ہے ایگرو فاریسٹ پالیسی 2012ء میں تبدیلی کے بعد مقامی باشندوں کو دی گئی 40 ایکڑ اراضی کی لیز ختم کر کے یہ رقبہ کمپنیوں کو الاٹ کیا گیا ہے۔
تیزی سے محاذ آرائی اور تصادم کی سمت جاتی صورتحال میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اب پی پی کا ردعمل کیا ہو گا؟
باخبر حلقے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں منی لانڈرنگ کے الزامات ثبوت کے مرحلے میں ہیں اور مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔ پی پی اس سارے معاملے کو زرداری اسٹیبلشمنٹ ٹکراؤ کے طور پر پیش کر رہی ہے اور رینجرز کو ہزاروں ایکڑ اراضی نہ دینے کا موقف اپنا کر کارروائیوں کو انتقامی ظاہر کیا ہے ۔ سندھ میں رینجرز حکومت تنازعہ اراضی کی الاٹمنٹ کا نہیں صوبے میں عوامی شکایات کا بھی ہے جب کہ شہر میں سرکاری ملازم تنخواہیں نہ ملنے پر احتجاج کررہے ہوں۔ کرپشن، بے قاعدگیوں کی باتیں علی الاعلان ہونے لگیں تو حکومت اور حکمرانوں کو از خود محتاط ہوجانا چاہئے تھا کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی نشاندہی کی تھی کہ ’’سندھ میں سب اچھا نہیں ہے‘‘ اس لئے یہ بات بھی واضح طور پر محسوس کی جارہی ہے کہ معاملہ زمینوں کا نہیں صوبے میں طرز حکمرانی کا ہے رینجرز ہوں یا دیگر ادارے وہ محسوس کرتے ہیں کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران جہاں بھی کارروائی ہوتی ہے وہاں انہیں بااثر افراد سے سابقہ پڑتا ہے لیاری گینگ وار سے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں تک، کراچی میں تجاوزات سے بھتہ خوری اور قربانی کی کھالوں اور فطروں کی جبری وصولی تک تمام کاموں میں سرکاری افسران اور سیاسی جماعت ملوث ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ، پی پی ہی نہیں سنی تحریک سمیت دیگر لوگوں اور گروپوں پر بھی ہاتھ ڈالا جارہا ہے کالعدم تنظیمیں بھی ملوث ہیں اس لئے رینجرز کے اس موقف کو کہ 230 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے عوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے اور لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ کرپشن اس سے زیادہ ہی ہوگی۔ سوال صرف اتنا ہے کہ معاشرے میں صفائی کا عمل جب سب کی خواہش ہے تو ان چھاپوں اور گرفتاریوں پر اعتراضات کیوں ہیں۔
پی پی کے حامی اسے انتقامی کارروائیوں اور حکومتی نظام کو تلپٹ کرنے کی سوچی سمجھی کوشش سے تعبیر کرتے ہیں تو پی پی کے مخالفین کے نزدیک حساب کتاب کا وقت آچکا ہے اس لئے رینجرز کی چشم کشا رپورٹ اور اقتدار کے ایوانوں ہی میں نہیں بعض سیاسی جماعتوں، دینی تنظیموں کے دفاتر میں بھی بھونچال کی کیفیت ہے اور سچ یہ ہے کہ بڑی مچھلیوں پر جو جال پھینکا گیا تھا اس میں ان کی اکثریت پھنس چکی ہے اور لوٹ مار کی تمام حدود کو عبور کرنے والے اب پریشان ہیں انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ وہ کیا کریں۔
کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کہتے ہیں کہ دہشت گردی اور ان کی مالی معاونت کرنے والوں کیخلاف آپریشن جاری رہے گا۔ انہوں نے آپریشن اور گرفتاریوں کو قابل اطمینان قرار دیا۔ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے حتمی مرحلے کو پہلے ہی جھونکا دینے والا بتایا جارہا ہے اور حالیہ کارروائیوں سے اس کی تصدیق ہوگئی ہے کہہ رہے ہیں کہ کرپٹ افسران میں کھلبلی مچی ہے لیکن اس مرحلے پر رینجرز کی یہ ذمہ داری ضرور بنتی ہے کہ وہ ایماندار افسران کو یقین دلائیں کہ انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں صرف بڑی مچھلیوں کا گھیرا تنگ ہورہا ہے اور یہی بات سندھ حکومت پر واضح کی جائے کہ وہ اختیارات سے تجاوز نہیں کررہی جہاں تنازعہ ہے وہاں بیٹھ کر طے کیا جائے فوج ہو یا رینجرز یہ پاکستان کے دفاعی ادارے ہیں اور سیاست دان عوام کے منتخب نمائندے۔ اختلافات کو ختم کرنے اور الفاظ کا محتاط انتخاب بہت ضروری ہے تاکہ پوری قوم متحد نظر آئے۔
رپورٹ: ا؛طاف مجاہد