اٹھارویں آئینی ترمیم کی خالق پیپلز پارٹی خود اسکی مخالف بن گئی
اراکین اسمبلی کی تعداد کا11 فیصد کابینہ ہونی چاہیے ، 35رکنی سندھ کابینہ کام کر رہی ہے کو آرڈینیٹرز تنخواہ و مراعات وزراء سے زیادہ لے رہے ہیں
آئینی ترمیم کی پیپلز پارٹی خود مخالف بن گئی ،اس وقت 35رکنی سندھ کابینہ 16 وزراء ،1 مشیر،12 معاونین خصوصی ، وزیر کا درجہ رکھنے والے چیئر مین سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن ،4 کو آرڈینیٹر اور ایک پولیٹیکل سیکریٹری پر مشتمل ہے۔ پیپلز پارٹی 18 ویں آئینی ترمیم کا خالق ہونے کا نعرہ لگاتی رہتی ہے کی جا نب سے سندھ کابینہ پر18 ویں ترمیم کو لاگو نہیں کیا گیا ،حالانکہ اس آئینی ترامیم کے بعد اراکین اسمبلی کی تعداد کا11 فیصد کابینہ ہونی چاہیے۔سندھ حکومت کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق اس وقت 16 شخصیات مکمل وزیر ہیں جبکہ ایک مشیر اصغر جو نیجو کو بھی وزیر کی حیثیت حاصل ہے جبکہ2 خصوصی معاونین کو بھی وزیر کا درجہ حاصل ہے جس کا آئین میں کہیں بھی ذکر نہیں لیکن پھر بھی شرمیلا فاروقی کو محکمہ ثقافت و سیاحت اور ضیاء الحسن لنجار کو سوشل ویلفیئر کا قلمدان دیا گیا ہے۔باقی وزراء میں نثار کھوڑو، میر ہزار خان بجارانی، منظور وسان، شرجیل میمن، مراد علی شاہ، سکندر میندھرو، مخدوم جمیل الزمان، جام مہتاب ڈہر،علی نواز مہر،علی مردان شاہ،گیان چند،مکیش کمار چاولا،میر ممتاز جکھرانی، روبینہ قائم خانی،دوست محمد راہموں،جام خان شورو شامل ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کو چیئر مین سندھ ہائیر ایجو کیشن کمیشن بنایا گیا ہے لیکن ان کی حیثیت وزیر کی ہے۔ اسی طرح معاونین خصوصی میں سہراب خان مری، راشد ربانی، وقار مہدی،امتیاز ملاح، یوسف مستوئی،جام قائم الدین،عمر رحمان ملک، جاوید احمد شاہ، سید ریاض حسین شاہ اور محمد ارشد مغل شامل ہیں۔ کوآرڈینیٹرز میں تاج حیدر، صدیق ابو بھائی، ابرار علی شاہ اور نادیہ گبول شامل ہیں، یہ کو آرڈینیٹرز تنخواہ اور مراعات وزراء سے زیادہ لے رہے ہیں۔حیرانگی کا امر یہ بھی ہے کہ نادیہ گبول کو انسانی حقوق کا محکمہ بھی سونپ دیا گیا ہے۔سندھ کابینہ کی فہرست میں لعل بخش منگی کا بھی نام درج ہے جو وزیر اعلیٰ سندھ کے پولیٹیکل سیکریٹری کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔