بول، ایگزیکٹ کیخلاف بغیر گواہوں کے مقدمہ،طاقت ور مافیا ایک ،عدالتی آزادی کا پول کھل گیا
آن لائن یونیورسٹیوں کی ڈگریاں فراہم کرنے والی کمپنی ایگزیکٹ جو پاکستان کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی ہونے کے ساتھ پاکستانی میڈیا میں دنیا کی جدید ترین مشینوں اور انفراسٹرکچرپر مشتمل بین الاقوامی سطح کا میڈیا گروپ بول متعارف کرانے جا رہی تھی، کے مالک شعیب شیخ اور ان کے متعدد ساتھیوں کو پاکستانی عدلیہ اور حکومت نے کوئی بھی الزام ثابت کیے بغیر تاحال جیل میں رکھا ہوا ہے اور اس کے تمام اثاثے اور کمپنیوں کو عدالت نے بول کے معاملات سے الگ کر کے کام کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔تاہم حکومت پاکستان کے وفاقی ادارے ایف ائی اے نے عدالتی حکم کو نظر انداز کر کے ایگزیکٹ کی عمارتوں کا قبضہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے اور ایگزیکٹ کے بچے کھچے ملازمین سے کہا ہے جسے جو کرنا ہے وہ کر لے،جس عدالت نے قبضہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے وہ یہ قبضہ چھڑا کر دکھائے۔ایف آئی اے کی اس ہٹ دھرمی کے بعد ایگزیکٹ کے وکلا نے ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ بھی قائم کر دیا ہے تاہم پاکستان کی وہ ”آزاد اور غیر جانبدار“عدلیہ جسے پاکستانی عوام نے مشرف دور میں ایک تاریخی اور عظیم تحریک کے نتیجہ میں اپنے طور پر آزاد کرایا تھا، مذکورہ مقدمے کی سماعت کو تیار نظر نہیں آتی۔
ایگزیکٹ اور بول کے مالک شعیب شیخ اور ان کے ساتھیوں کو حکومت نے جن الزامات کے تحت گرفتار کر کے قید رکھا ہے، ان مقدمات کی آئینی اور قانونی حیثیت کے پس منظر میں پاکستان کے نامور اور وہ ماہر قانون دان، وکلا جو عدلیہ تحریک کا ہراول دستہ تھے، یہ تسلیم کرتے ہیں شعیب شیخ اور ان کے ساتھیوں کو جن مقدمات کے تحت گرفتار کر کے قید رکھا گیا ہے ان مقدمات میں عام طور پر علاقہ پولیس ہی ضمانت فراہم کر سکتی ہے۔ بول اور ایگزیکٹ کے خلاف مئی کے اوائل میں ممتاز اور بین الاقوامی اخبار نیو یارک ٹائمز نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس میں الزامات عائد کیے گئے تھے کہ ایگزیکٹ کمپنی دنیا بھر میں جعلی تعلیمی ڈگریاں فراہم کرنے کے کاروبار میں ملوث ہے۔رپورٹ کی اشاعت کے فوری بعد بنا کوئی ٹھوس ثبوت حاصل کیے ایگزیکٹ اور اس کے ذیلی ادارے بول پر حکومت نے دھاوا بول دیا اور اس کے تمام ادارے بند کر دیے اور کمپنی کے مالک سمیت ایگزیکٹ میں کام کرنے والے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ بول کے ساتھ ایگزیکٹ کی بندش میں پاکستان کے طاقت ور میڈیا گروپ کا ہاتھ ہے۔ جو بول کی ٹیکنالوجی کے ساتھ صحافیوں کو ملنے والی مراعات و آزادی سے خوف زدہ تھے۔
سندھ ہائی کورٹ میں بول اور ایگزیکٹ کے خلاف مقدمہ سننے والا جج تیس سال تک جنگ گروپ کا وکیل رہا ہے جبکہ ایف آئی اے نے بول اور ایگزیکٹ کے خلاف مقدمہ لڑنے کے لیے پہلی بار جس غیر سرکاری وکیل کی خدمات حاصل کیں وہ جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کے صاحبزادے میر ابراہیم کا بچپن کا دوست ہے
ذمہ دار ذرائع کہتے ہیں کہ سندھ ہائی کورٹ میں بول اور ایگزیکٹ کے خلاف مقدمہ سننے والا جج تیس سال تک جنگ گروپ کا وکیل رہا ہے جبکہ ایف آئی اے نے بول اور ایگزیکٹ کے خلاف مقدمہ لڑنے کے لیے پہلی بار جس غیر سرکاری وکیل کی خدمات حاصل کیں وہ جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کے صاحبزادے میر ابراہیم کا بچپن کا دوست ہے۔ بول اور ایگزیکٹ کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل بیرسٹر زاہد جمیل پاکستان کے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے پڑنواسے اور پاکستان کی سابق وفاقی وزیر قانون اور حسین شہید سہروردی کی نواسی شاہدہ جمیل کے صاحبزادے ہیں، جن کے بارے میں قانونی حلقوں میں عام تاثر ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر انصاف اور قانون کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرکے اس کا خون کرنے کے ماہر ہیں۔
بول اور ایگزیکٹ کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل بیرسٹر زاہد جمیل پاکستان کے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے پڑنواسے اور پاکستان کی سابق وفاقی وزیر قانون اور حسین شہید سہروردی کی نواسی شاہدہ جمیل کے صاحبزادے ہیں، جن کے بارے میں قانونی حلقوں میں عام تاثر ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر انصاف اور قانون کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرکے اس کا خون کرنے کے ماہر ہیں۔
مستند ذمہ دار ذرائع کہتے ہیں پاکستان جہاں سول، فوجی بیوروکریسی کے ساتھ سیاسی حکومتوں کی بدعنوانی اور اقربا پروری بین الاقوامی شہرت رکھتی ہے وہاں عدلیہ کے ساتھ میڈیا بھی اسی بیماری میں مبتلا ہے۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی ایک ادارے اور فردکے خلاف تمام طاقتور طبقات ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ہیں۔ ایگزیکٹ کے ذمہ دار مستند ذرائع دعوی کرتے ہیں کہ ایگزیکٹ نہ ہی پاکستان میں کوئی چیز فروخت کرتا تھا اور نہ ہی خریدتا تھا، اس کے باوجود ایگزیکٹ اپنے آٹھ ہزار ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں 65 کروڑ روپے ٹیکس ادا کیا کرتا تھا۔ آئی ٹی کے کاروبار میں 65 فیصد مصنوعات ایکپسورٹ کرنے والے پاکستانی ادارے ایگزیکٹ پر لگائے گئے الزامات کے بعد حکومتی اقدامات سے جہاں حکومت کو ایک طرف 65 کروڑ سالانہ ٹیکس سے محروم ہونا پڑا ہے وہیں اس کمپنی کے آٹھ ہزار ملازمین بھی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ایگزیکٹ کے ذیلی ادارے اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے دعویدار بول ٹیلی وڑن کے دو ہزار ملازمین اس کے علاوہ ہیں۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے ہر گز خالی نہیں بول گروپ قائم کرنے کے لئے ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ کو قائل کرنے والے نامور صحافی کامران خان اور اظہر عباس بول اور ایگزیکٹ پر الزامات عائد ہوتے ہی ادارہ چھوڑ کر چلے گئے۔ کامران خان نے سب سے پہلے پاکستان کے بزنس ٹائیکون ملک ریاض کے ذریعے جیو ٹیلی وڑن واپس جانے کی کوشش کی تاہم وہ جیو کی پیش کردہ شرائط منظور نہ ہونے کے باعث دنیا نیوز چلے گئے اور اظہر عباس کو جیو ٹی وی نے ہی دوبارہ ان کے سابقہ عہدے پر رکھ لیا ہے۔