جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ، ثبوت لاؤ ۔۔۔ ثبوت ۔۔۔ ایک دلچسپ ڈرامہ پڑھیں
کردار: نواز، عمران، آصف وغیرہ (امتحانی امیدوار)، فخرالدین صاحب (پبلک سروس کمیشن کے چئیرمین)، افتخار صاحب (امتحانی چیکر)، نجم صاحب(امتحان ہال سپرنٹنڈنٹ)، شکیل ( چپڑاسی) سمیت کئی افراد پر مشتمل امتحانی عملہ،راؤ صاحب (ممتحن)، نادرہ (امتحان ہال میں کیمروں کی نگران)، ناصر صاحب (جج)۔
نوٹ: راؤ کو “آر او” اور نادرہ کو “نادرا” اپنے رسک پر ہی سمجھیں۔ زلمے اس کا ذمہ دار نہیں۔
منظر نمبر 1: پبلک سروس کمیشن کے زیراہتمام ایک اعلی سرکاری عہدے کیلئے جاری امتحان کے ہال کا منظر۔
مئی کا مہینہ ہے اور سخت گرمی کا دن ہے۔ تاریخ ہے غالباٌ 11 مئی 2013۔ پرچہ کافی سخت ہے اور سب امیدوار بار بار ماتھے پرآیا پسینہ پونچھ رہے ہیں۔ نجم اور ان کا باقی امتحانی عملہ ہال کے چکر لگارہے ہیں۔ تقریباٌ ہاف ٹائم ہوچکا ہے۔ اچانک نواز اشارے سے چپڑاسی شکیل کو بلاتا ہے اور اس کے کان میں کچھ کہتا ہے۔ چپڑاسی شکیل اپنا موبائل اٹھا کر چیکر افتخار کو کال ملاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد شکیل ہال کا دروازہ کھولتا ہے اور چیکر افتخار اندر آجاتا ہے۔کچھ دیر ہال میں گھوم پھر کے افتخار نواز کے پاس آتا ہے۔ نواز اسے دھیمی آواز میں بتاتا ہے کہ 5 میں سے 3 سوال تو جیسے تیسے کرکے ہوگئے ہیں لیکن باقی 2 کی بالکل سمجھ نہیں آرہی۔
افتخار نجم کے پاس جاکر اسے نواز کیلئے کوئی “بندوبست” کرنے کا کہتا ہے۔ نجم اسے کہتا ہے کہ ایسا نہ ہو چئیرمین فخرالدین کو بھنک پڑ جائے تو مسلہ نہ ہوجائے۔ افتخار اسے کہتا ہے کہ فخرالدین کی فکر نہ کرو، وہ بوڑھا اور ذہنی لحاظ سےکمزور بندہ ہے جسے صبح شام کا صحیح پتہ نہیں چلتا۔ اور ویسے بھی کمیشن کے عملے میں ہمارے بندے موجود ہیں، کوئی مسلہ نہیں ہوگا۔ نجم کو یہ سن کر تسلی ہوتی ہے اور وہ اپنے امتحانی عملے کے رکن راؤ کو بلاکر اسے سمجھاتا ہے۔ راؤ نواز کے پاس آکر چپکے سے کہتا ہے کہ پرچہ مجھے دے کر خاموشی سے ہال سے چلے جاؤ، باقی میں سنبھال لوں گا۔ نواز پرچہ اس کے حوالے کرکے نکل جاتا ہے اورراؤ اس کا پرچہ لے کر ایک کونے میں بیٹھ کر حل کرنے لگتا ہے۔ ادھر عمران نواز کو ہاف ٹائم پر ہی ہال سے نکلتے دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ نواز اتنا لائق تو نہیں کہ اتنا مشکل پرچہ ہاف ٹائم سے پہلے ہی مکمل کرلے۔ بہرحال وہ کندھے اچکا کے اپنے پرچے میں مصروف ہوجاتا ہے اور3 سوالات کے بہترین جوابات لکھ دیتا ہے، 1 سوال کا تسلی بخش جواب لکھتا ہے البتہ 1 سوال تھوڑا گزارے لائق لکھتا ہے۔ پرچے کا وقت پورا ہونے پر سب امیدوار اپنے پرچے امتحانی عملے کے حوالے کرکے نکل آتے ہیں۔
منظر نمبر2: پبلک سروس کمیشن کے دفتر کا مارکنگ روم (پرچوں کی چیکنگ والاکمرہ) کا منظر۔
پرچوں کی مارکنگ جاری ہے ۔ نواز کا پرچہ سامنے آتا ہے تو ممتحن راؤ سیدھانجم اورافتخار کی طرف دیکھتا ہے۔وہ اسے اشارہ کرتے ہیں کہ کسی بھی طرح “بھاری نمبروں” سے پاس کرواؤ۔ چنانچہ راؤ اس کے غلط کیے گئے سوالوں کو بھی ٹھیک کردیتا ہے اور جو آخری دو سوال خود اسی (راؤ) نےنواز کے پرچے میں لکھے ہوتے ہیں وہ تو ظاہر ہے ٹھیک ہی تھے۔یوں نواز کا اے گریڈ آ جاتا ہے۔ جب عمران کا پرچہ راؤ چیک کرتا ہے تو اس کے نمبر بھی اے گریڈ بنتے ہیں اور نواز سے ایک نمبر زیادہ بن جاتا ہے۔اب جب نتائج فائنل ہورہے ہوتے ہیں تو میرٹ لسٹ میں عمران کا نام سب سے اوپر اور نواز امتحانی عملے کی تمام تر کوششوں کے بعد بھی دوسرے نمبر پر۔یہ دیکھ کر افتخار اور نجم ممتحن کو ہدایت کرتے ہیں کہ عمران کا پرچہ دوبارہ نکالو اور کسی بھی طرح اس کے کچھ نمبر کاٹ کے اسے اےگریڈ سے نیچے لے آؤ۔راؤعمران کے پرچے کے اوپر کٹنگ کرکے اس کے نمبر نواز سے کافی کم کردیتا ہے۔یوں نئی میرٹ لسٹ جو بنتی ہے اس میں نواز سب سے اوپر اور عمران نیچے چلا جاتا ہے۔
منظر نمبر3: پبلک سروس کمیشن کے دفتر کا میڈیا روم(چئیرمین فخرالدین کی پریس کانفرنس)۔
چئیرمین فخرالدین نتیجے کا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اعلی عہدے کا امتحان نواز نے ٹاپ کرلیا ہے اور یوں عہدہ اسے مل گیا ہے۔ وہ شفاف اور آزادانہ امتحانات پر خود کو خراج تحسین پیش کرتا ہےاور ساتھ ہی امتحانی عملے،ممتحن، نجم اور افتخار وغیرہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے۔(نوٹ: نواز کو ملنے والا عہدہ ایسا ہے کہ پبلک سروس کمیشن کا ادارہ اس کا ماتحت ہے)۔
منظر نمبر4: افتخار کا گھر(اس کے بیٹے ارسلان کو نواز کی طرف سے کروڑوں کا معدنی ٹھیکہ ملنے کی خوشی میں شاندار پارٹی)۔
منظر نمبر 5: نجم کا گھر (نجم کو نواز کی طرف سے سپورٹس کا کروڑوں کا ٹھیکہ ملنے کی خوشی میں شاندارپارٹی)۔
منظر نمبر 6: نواز کا گھر (اعلی عہدہ ملنے کی خوشی میں شاندار پارٹی جس میں افتخار، نجم، ممتحن وغیرہ سب موجود)۔
منظر نمبر 7: عمران کا گھر۔
عمران امتحانی نتیجے پر حیران و پریشان ہے۔ صرف وہی نہیں بلکہ وہ سب لوگ بھی جو عمران کی اس امتحان کیلئے کی گئی کڑی محنت کے گواہ تھے۔ عمران کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنا مشکل پرچہ، جس کے ہاف ٹائم سے پہلے ہی نواز ہال سے نکل گیا، وہ اس نے ٹاپ کیسے کرلیا؟ اسے یہ بھی حیرت تھی کہ اس کےاپنے پرچے میں تو 3 سوال بہترین تھے، 1 تسلی بخش تھا اور صرف 1 سوال میں نمبر کٹنے کی گنجائش تھی۔ اس لحاظ سے اس کا کم ازکم اے گریڈ تو آنا چاہئیے تھا (بلکہ شاید اےون ہی بن جاتا) لیکن نتائج میں اس کے نمبر بی گریڈ بنے۔اس نے سوچا کہ وہ پبلک سروس کمیشن میں اپیل کرے گااس نتیجے کے خلاف۔
منظر نمبر 8: پبلک سروس کمیشن میں عمران کی اپیل پر کارووائی کا منظر۔
چئیرمین فخرالدین حیرت سے افتخار ،نجم اور راؤ سے پوچھتا ہے کہ عمران نے امتحانی نتیجے کے خلاف اپیل کیوں کی ہے؟ امتحان اور نتیجہ تو بڑا صاف و شفاف نہیں تھا؟ افتخار، نجم اور راؤ اسے یقین دلاتے ہیں کہ “فخرو” صاحب، امتحان بالکل شفاف تھا۔ آپ ٹینشن نہ لیں۔ فخرو کہتا ہے ٹھیک ہے بھائی لیکن میں نےبڑھاپے میں اس امتحان کے انعقاد سے اپنا فرض پورا کردیا، اب میں ریٹائر ہونا چاہتا ہوں۔یہ سن کر افتخار، نجم اور راؤ اسے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ فخرو عمران کی اپیل پر “این ایف اے” (نو فردر ایکشن) لکھ کر واپس کردیتا ہے۔
منظر نمبر 9:
عمران کو پبلک سروس کمیشن کی طرف سے اس کی اپیل پر “این ایف اے” کا جواب مل جاتا ہے۔اس کے بعد عمران امتحان میں ہونے والی زیادتی کی ذاتی طور پر تحقیق کرواتا ہے تو اس پر حیرتناک انکشاف ہوتاہےکہ امتحان سے پہلے ہی نواز نے چیکر افتخار، سپرنٹنڈنٹ نجم، ممتحن راؤ اور چپڑاسی شکیل کو ساتھ ملایا ہوا تھا۔اسے پتہ چلتا ہے کہ نواز نے تو پرچہ ادھورا چھوڑ دیا تھا جو کہ راؤ نے حل کردیا۔اور اس “خدمت” کے بدلے نواز نےعہدہ ملنے کے بعد ان سب لوگوں کو ایک ایک کرکے “نواز” دیا۔عمران کو اب یقین ہوجاتا ہے کہ اس کے اپنے پرچے میں بھی ان لوگوں نے کوئی “دھاندلی” کی ہوگی ورنہ اتنے اچھے پرچے پر بی گریڈ آنا ممکن نہیں۔ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ پبلک سروس کمیشن میں دوبارہ اپیل کرےگا۔
منظر نمبر 10:
عمران کی اپیل پر اسےپبلک سروس کمیشن میں بلا لیاجاتا ہے۔ وہ اپنا پرچہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ تھوڑی مین میخ کے بعد اسے پرچہ دکھا دیا جاتا ہے تو وہ پرچے میں ہونے والی کٹنگ اور قصداٌ غلط کیے گئے سوالات دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔وہ اس کا سبب پوچھتا ہے تو افتخار اور راؤ اسے “شرمناک” جواب دیتے ہیں کہ پرچے چیک کرنا ممتحن کا کام ہے۔ وہ جس سوال کے جتنے نمبر دینا چاہے، اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔عمران ان سے بحث کرنے لگتا ہے تو وہ اسے کہتے ہیں کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ اب تو نواز کو عہدہ مل چکا ہے۔ صبر کرو اور اگلے امتحان کا انتظار کرو۔
منظر نمبر 11: نواز کے دفتر کے باہر کا منظر۔
عمران امتحانی “دھاندلی” کے خلاف نواز کے دفترکے سامنے احتجاج کیلئے پہنچ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کے دوست احباب بھی شامل ہوتے ہیں۔ احتجاج کئی دن تک جاری رہتا ہے۔ روز بہت سے عام لوگ عمران کی کہانی سن کر اس کے احتجاج میں اس کیساتھ شامل ہوتے ہیں۔ تقریباٌ 126 دن کے احتجاج کے بعد نواز عمران کو عدالتی کمیشن سے اس پورے معاملے کی انکوائری کی آفر کرتا ہے۔عمران یہ آفر مان لیتا ہے کیونکہ عدالتی کمیشن کےجج ناصر سے اسے انصاف کی امید ہوتی ہے۔
منظر نمبر 12: جج ناصر کے زیرسربراہی عدالتی کمیشن کے اجلاس کا منظر۔
عمران جج ناصر کے سامنے اپنے دلائل پیش کرتا ہے تو جج اسے کہتا ہے “ثبوت لاؤ” کہ تمہارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ عمران کہتا ہے جناب والا امتحان ہال میں کیمرے لگے ہوئے تھے جن کی انچارج نادرہ تھی۔ نادرہ کو بلا کر اس سے امتحان ہال کی ویڈیو ٹیپ منگوائی جائے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ جج نادرہ کو بلواتا ہے اور ٹیپ کمرہ عدالت میں چلائی جاتی ہے۔ ٹیپ سے پتہ چلتا ہے کہ نواز ہاف ٹائم سے پہلے ہی پرچہ راؤ کے حوالے کرکے نکل گیا اور راؤ اس کا پرچہ لے کر کچھ لکھتا رہا۔ عمران کہتا ہے: “دیکھا جناب عالی، یہ رہا ثبوت”۔ جج ناصر نے اپنی عینک سیدھی کی اورکہا: “لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ ناانصافی ہوئی؟ ہوسکتا ہے نواز کو پورا پرچہ آتا ہو اور اس نے ہاف ٹائم سے پہلے ہی حل کرلیا ہو”۔ جج نے نواز سے پوچھا کہ کیا اس نے پرچہ پورا حل کیا تھا؟ نواز بولا: “جی یور آنر۔ میں نے تو پورا پرچہ حل کرلیا تھا”۔ عمران بولا : “یور آنر اگر نوازنے پرچہ حل کرلیا تھا تو آخر راؤ اس کا پرچہ لے کر اس پر ایک گھنٹہ کیا لکھتا رہا؟ پرچہ قواعد و ضوابط کے مطابق فوراٌ جوابی پرچوں والے لفافے میں کیوں نہیں ڈالا”؟ یہ سن کر جج ناصر سر ہلاتا ہے اور کہتا ہے کہ مزید “ثبوت لاؤ”۔ یہ سن کر عمران درخواست کرتا ہے کہ پبلک سروس کمیشن سے اس کا پرچہ منگوایا جائے جس میں بلاوجہ کٹنگ کرکے اس کے نمبر کم کیے گئے۔ پرچہ پیش کیا جاتا ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ واقعی 2 سوالوں کے نمبر پہلے زیادہ لکھ کر بعد میں کاٹے گئے ہیں اور کم نمبر دیے گئے جس سے پرچہ اے گریڈ سے بی میں آگیا۔ اس کے بعد جج ناصر کمیشن کی کارووائی اگلی پیشی تک ملتوی کردیتا ہے۔
۔
منظر نمبر 13: جج ناصر کے زیرسربراہی عدالتی کمیشن کے اجلاس کی اگلی پیشی کا منظر۔
جج ناصر پھر عمران سے کہتا ہے کوئی اور “ثبوت لاؤ”۔ عمران اس سے کہتا ہے نواز کا پرچہ عدالت میں پیش کیا جائے تو مزید ثبوت مل جائے گا۔ نواز کا پرچہ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو عمران بتاتا ہے: :”دیکھئے یور آنر۔ کس طرح نواز کے لکھے ہوئے کمزور جوابات پر بھی اس کو پورے نمبر دیے گئے ہیں۔ جبکہ اسی سوال کے نواز والے جواب کا موازنہ میرے جواب سے کیا جائے تو وہ کہیں بہتر نکلےگا پھر بھی میرے نمبر کاٹے گئے”۔ یہ سن کر راؤ بول پڑتا ہے:” آبجیکشن یورآنر ۔قواعدوضوابط کے مطابق پرچوں کی چیکنگ ممتحن کا کام ہے اور وہ جس سوال پر جتنے نمبر دے دے، اس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا”۔ جج ناصر بولا”ہاں قانون تو یہی ہے۔ آبجیکشن سسٹینڈ”۔ یہ سن کر عمران مایوس ہونے لگتا ہے۔ اچانک نواز کے پرچے کے مختلف جوابات کو دیکھتے ہوئے وہ ایک چیز نوٹ کرتا ہے اور اس کی آنکھوں میں چمک آجاتی ہے۔ وہ چلاتا ہے: “اوئے یور آنر۔پرچہ غور سے پڑھییے۔اس میں پہلے 3 سوالات کی ہینڈ رائیٹنگ کچھ اور ہے اور باقی 2 سوالات کی ہینڈرائیٹنگ کچھ اور ہے۔ آپ ابھی نواز اور راؤ کی تحریر سے اس کا موازنہ کریں تو پتہ چلےگا کہ پہلے 3 سوال نواز نے لکھے اور باقی 2 راؤ نے”۔ یہ سن کر نواز اور راؤ دونوں غصے میں چیخنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں عمران بلاوجہ ہم “شریف” لوگوں پر الزامات لگارہا ہے۔ جج ناصر سوالات کی ہینڈ رائیٹنگ کا موازنہ کرتا ہے اور تفہیمی انداز میں سر ہلاتا ہے۔ اتنے میں عدالت کا اردلی گھنٹی بجاتا ہےاورجج ناصر کمیشن کی کارووائی اگلی پیشی تک ملتوی کردیتا ہے۔
۔
منظر نمبر 14: جج ناصر کے زیرسربراہی عدالتی کمیشن کے اجلاس کی اگلی پیشی کا منظر۔
جج ناصر عمران سے کہتا ہے :” ہاں تو عمران صاب، کب لارہے ہیں آپ ثبوت”؟ عمران بتاتا ہے کہ پرچوں کے حوالے سے کافی ثبوت تو وہ پچھلی پیشیوں میں دے چکا ہے اور اب کچھ واقعاتی شہادتیں پیش کرنا چاہتا ہے۔ جج ناصر اجازت دے دیتا ہے۔ عمران کہتا ہے: ” یور آنر، نواز نے عہدہ ملنے کے چند دن کے اندر اندر سپرنٹنڈنٹ نجم کو کروڑوں روپے کا سپورٹس کا ٹھیکہ دلوایا حالانکہ نجم کی 7 پشتوں میں کسی کا کبھی سپورٹس سے واسطہ نہیں رہا۔ دوسری طرف چیکر افتخار کے بیٹے ارسلان کو کروڑوں روپے کا معدنی ٹھیکہ دیا حالانکہ وہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہے اور اس کا معدنیات سے دورپار کا بھی واسطہ نہیں۔ اس کے علاوہ نواز نے ممتحن راؤ کو بھی نوازا اور چپڑاسی شکیل کو بھی ایک اخبار کی ایجنسی دلوا دی ہے۔ آخر یہ سب نوازشیں ان سب پر کیوں ہوئیں اچانک؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب نواز کیساتھ ملے ہوئے تھے”۔ یہ سن کر جج ناصر نجم، افتخار، شکیل وغیرہ سے پوچھتا ہے کہ کیا واقعی ان کو یہ ٹھیکے وغیرہ ملے ہیں؟ انہوں نے سر جھکا کر اقرار کیا لیکن اتنے میں نواز بول پڑا: “یور آنر، ان ٹھیکوں کا امتحان میں میری مدد سے کوئی تعلق نہیں۔ دراصل میں ان صاحبان کے اچھے اخلاق سے اتنا متاثر ہوا کہ میں نے ان کو یہ ٹھیکے دےدیے۔ قسم سے”۔ جج ناصر نے اپنے پاس کچھ نوٹ کیا اور اعلان کیا کہ سماعت ختم ہوگئی ہے۔ اب کمیشن اپنی رپورٹ تیار کرےگا۔
منظر نمبر 15:
جج ناصر عدالتی کمیشن کی رپورٹ اسی نواز کو بھجواتا ہے جس پر “ان فئیر مینز” استعمال کرنے پر عمران نے دعویٰ کیا ہوا تھا۔ نواز اس رپورٹ کے کچھ حصے چپڑاسی شکیل کے حوالے کرتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ شہر میں مختلف چوکوں پر اعلان کروائے کہ عدالت نے نواز کے حق میں فیصلہ دے دیا اور یہ کہ عمران کا دعویٰ باطل ثابت ہوا اس لئے اب وہ نجم، افتخار، نواز اور ان لوگوں سے معافی مانگے جو اس کی بات مان کر احتجاج کیلئے نکلے تھے۔ شکیل چند ڈھولچیوں صافی، مظہر، حامد، چیمہ، ارشد،منصور، مس شیرازی وغیرہ کو لے کر شہر کے مختلف چوکوں پر ناچ ناچ کر یہ بات نشر کرنا شروع کردیتا ہے کہ : “عمران کا الزام غلط ثابت ہوا، عدالت نے نواز کے اعلی عہدے پر تقرری کو جائز قرار دیا، امتحان میں کوئی ان فیرم مینز استعمال نہیں ہوئے ، عمران اب معافی مانگے وغیرہ وغیرہ”۔
منظر نمبر 16:
عمران کو عدالت کی سماعت اور کارووائی سے پوری امید تھی کہ جتنے کچھ ثبوت وہ جج ناصر کے سامنے پیش کرچکا ہے، ان سے کیس کا فیصلہ اس کے حق میں ہوگا۔ لیکن عدالتی فیصلے کی رپورٹ دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔ عدالت کے فیصلے کے چیدہ چیدہ نکات یہ تھے:
1) اگرچہ نواز کمرہ امتحان سے ہاف ٹائم سے پہلے نکل گیا تھا لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس نے پرچہ مکمل حل نہیں کیا تھا۔ یہ تو صرف “بےقاعدگی” تھی۔
2) اگرچہ ہال کی ویڈیو کے مطابق راؤ اس کے پرچے پر گھنٹے تک کچھ لکھتا رہا لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اس کیلئے جوابات لکھ رہا تھا۔ یہ تو صرف بےقاعدگی تھی۔
3) اگرچہ راؤ نے قواعد کے مطابق فوراٌ نواز کا پرچہ لفافے میں نہیں ڈالا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کا پرچہ حل کررہا تھا۔ یہ تو صرف بےقاعدگی تھی۔
4) اگرچہ عمران کے پرچے میں بلاوجہ صحیح جوابات کو کاٹا گیا تھا اور نمبر کم لگائے گئے تھے لیکن یہ ناانصافی نہیں تھی۔ یہ تو صرف بےقاعدگی تھی۔
5) اگرچہ نواز کے پرچے پر غلط سوالات کو بھی پورے نمبر دیے گئے تھے لیکن یہ ناانصافی نہیں تھی۔ یہ تو صرف بےقاعدگی تھی۔
6) اگرچہ نواز کے پرچے میں 3 سوالات کی ہینڈرائیٹنگ باقی 2 سوالات کی ہینڈ رائیٹنگ سے قطعی مختلف تھی لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ باقی 2 سوال نواز نے خود نہیں لکھے بلکہ راؤ نے لکھے۔
7) اگرچہ نواز نے عہدہ ملنے کے فوراٌ بعد چیکر افتخار کے بیٹے کو بغیر کسی تجربے کروڑوں کا معدنی ٹھیکہ دیا اور سپرنٹنڈنٹ نجم کو بغیر کسی تجربے کے سپورٹس کا ٹھیکہ دیا لیکن اس سے ان کی آپس میں ملی بھگت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہ تو نواز کی خداترسی اور دریادلی تھی کہ ان کے اچھے اخلاق سے متاثر ہوکر اس نے ان کیلئے روزگار کاپکا بندوبست کیا۔
8) ان سب حقائق کے مدنظر عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اگرچہ اس امتحان میں کچھ “بےقاعدگیاں” ہوئی ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ امتحان بالکل صاف و شفاف منعقد ہوا اور یہ اعلیٰ عہدہ اصل حقدار یعنی نواز کو جائز طور پر مل گیا۔ عدالت عمران کو تاکید کرتی ہے کہ وہ لوگوں کا وقت ضائع کرنے پر اور بلاوجہ ناانصافی اور “دھاندلی” کے الزامات لگانے پر سب متعلقہ افراد سے معافی مانگے۔
منظر نمبر 17:
عمران کے گھر کا منظر جہاں عمران عدالتی فیصلے کی کاپی لے کر حیران پریشان موجود ہے۔ اس کے کچھ دوست بھی موجود ہیں۔ گھر کے باہر نواز کے حامیوں اور شکیل کے جمع کیے ہوئے ڈھولچیوں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے۔ ساتھ ہی فضل نامی مولوی، اسفندیار نامی ٹھیکیدار، الطاف نامی بھتہ خور ٹارگٹ کلر بھی موجود ہیں۔ وہ سب بیک آواز عمران سے ایک ہی مطالبہ کرتے ہیں: “ماپی مانگے گا۔ اب تو ماپی مانگے گا۔ ماپی تو مانگنا پڑے گا”۔ عمران کے گھر کے باہر اس قسم کے نعرے لگانے والوں کا ہجوم بڑھتا جاتا ہے اور ایک ایک کرکے اس کے ساتھ کھڑے لوگ بہانے بہانے سے باہر نکل کرکے اسی ہجوم کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔ عمران حیران و پریشان کبھی ادھر دیکھتا ہے کبھی ادھر اور۔۔۔۔۔۔۔ کبھی آسمان کی طرف۔ وہ سوچتا ہے کہ کیا واقعی یہ شہر اتنا اندھا ہوگیا ہے کہ اس کو سچ اور جھوٹ میں فرق نظر نہیں آتا؟ کیا انصاف یوں بھی بکتا ہے؟ کیا واقعی یہاں حق بات کیلئے لڑنے کی سزا یہ ہے کہ آپ کو شودر بنا دیاجائے؟
منظر نمبر 18:
زلمے کا کمرہ جہاں وہ کمپیوٹر پر بیٹھ کر یہ کہانی نما ڈرامہ یا ڈرامہ نما کہانی لکھ رہا ہے۔ پتہ نہیں کیوں بار بار اس کی آنکھوں میں پانی آجاتا ہے۔ شاید موسم کا اثر ہے، حبس بھی تو بہت ہے نا آج کل۔ پورے شہر پر مایوسی، جرم، بےبرکتی، ناانصافی، ضمیرفروشی کا حبس جو طاری ہے۔ یوں لگتا ہے “گوتھم سٹی” ہو جہاں ہر طرف “بین” اور اس کے گماشتوں کا راج ہے۔ اور بیٹ مین کو سب جرائم پیشہ مل کر نیچا دکھا رہے ہیں (انصاف دینے والوں کو ملا کر)۔ اس کو بدنام کرکےمایوس کرنا چاہتے ہیں۔ گوتھم سٹی کے غریب لوگوں کو اس سے مایوس کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ اس کے راستے سے ہٹنے کے بعد وہ شہر والوں کیساتھ جو کرنا چاہتے ہیں، کھل کر کرسکیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بیٹ مین مایوس ہوگا؟
بیٹ مین کا تو پتہ نہیں۔ لیکن زلمے۔۔۔۔۔ کل بھی بیٹ مین کے ساتھ تھا، آج بھی ہے، اور آنے والے کل بھی۔۔۔۔ انشاءاللہ۔
تحریر: شازلمےخان