سانحہ صفورا،پولیس کی چشم پوشی سوالیہ نشان ، دہشت گرد کیسے کامیاب ہوئے؟
کراچی ایک بار پھر خون میں نہا گیا رینجرز کے آپریشن کے بعد کہا یہ جا رہا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کے جن کو قابو میں کرلیا گیا ہے اور بڑی حد تک ایسا لگ بھی رہا تھا لیکن دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز نے اگلی پچھلی ساری کسر پوری کردی اور صفورا چوک پر فائرنگ کے ایک ہی واقعے میں 16خو اتین سمیت 45افراد کو موت کی نیند سلا دیا حملہ آوروں کی تعداد چھ تھی جنہوں نے فائرنگ سے قبل صفورا چوک پر ایک نسبتاً ویران علاقے میں واقع خالی مکان کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جبکہ اسکیم 33 سے عائشہ منزل کی طرف جانے والی الاظہر گارڈن کی بس نمبر جے بی 0333کو پولیس کی یونیفارم میں ملبوس حملہ آوروں نے روکا اور بس میں چڑھنے کے بعد حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں خواتین سمیت 45افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 20افراد زخمی بھی ہوئے واقعے کے بعد سینئر پولیس افسران ہی نہیں بلکہ علاقہ پولیس بھی انتہائی تاخیر سے موقع پر پہنچی جس پر آئی جی پولیس سندھ غلام حیدر جمالی نے انتہائی برہمی کا اظہار کیا اور ڈی ایس پی اور سچل تھانے کے انچارج کو معطل بھی کر دیا دوسری طرف واقعے کی اطلاع ملتے ہی آرمی چیف جنرل راحیل شریف دورہ سری لنکا منسوخ کر کے فوری طور پر کراچی پہنچ گئے اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بھی کراچی کا رخ کیا سندھ حکومت کے علاوہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے یوم سوگ کا اعلان کرتے ہوئے ٹرانسپورٹ اور کاروبار بند رکھنے کی اپیل کی۔ یقینی طور پر سانحہ پشاور کے بعد کراچی میں صفورا چوک پر بس پر فائرنگ کا یہ دلخراش واقعہ بھی کسی المیے سے کم نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ایسے شہر میں جہاں پولیس کے ساتھ ساتھ رینجرز بھی پوری طرح متحرک ہے دہشت گرد دن دہاڑے اور آزادانہ طور پر کس طرح اتنی بڑی کارروائی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ جس ویران علاقے میں واقعے خالی مکان کو دہشت گردوں نے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا وہاں عام طور پر لینڈ مافیا کے مسلح لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے اور پولیس ان کی جانب سے چشم پوشی اختیار کئے رکھتی ہے دہشت گردوں نے بدھ کی صبح جس بس کو نشانہ بنایا وہ روزانہ اس وقت صفورا چوک سے گذرتی تھی جس پر حملے سے قبل یقینی طور پر حملہ آوروں نے کئی دن تک ریکی کی ہو گی لیکن وہ پولیس اور انٹیلی جینس اداروں کی نظروں میں نہیں آسکے۔ یہ ایک بڑا سوال ہے ایک ڈی ایس پی اور تھانہ انچارج کی معطلی کافی ہے یا غفلت کے اہل ذمہ داروں کا پتہ چلا کر ان کے خلاف بھی کارروائی کی
جائے گی۔ اس کا جواب ملنا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ الاظہر گارڈن کی بس نمبر جے بی 0333 پر فائرنگ کا واقعہ بدھ کی صبح تقریباً ساڑھے نو بجے سچل کے علاقے میں صفورا چوک پر میمن میڈیکل سینٹر کے قریب پیش آیا جس کے بعد تین موٹر سائیکلوں پر سوار چھ دہشت گرد بآسانی فرار ہوگئے۔ عینی شاہدوں کے مطابق دہشت گرد جائے وقوعہ سے نزدیک ہی واقع ایک خالی مکان میں چھپے ہوئے تھے جنہوں نے اسکیم 33سے عائشہ منزل جانے والی الاظہر گارڈن کی بس کو روکنے کے بعد اندر گھس کو وحشیانہ انداز میں گولیاں برسائیں ۔یک عینی شاہد کے مطابق بس کو روکنے والا حملہ آور پولیس کی یونیفارم میں ملبوس تھا ۔حملہ آوروں نے بس کے اندر گھس کر تمام مسافروں کو سر نیچے کرنے کا حکم دیا اور پھر دو بچوں کو الگ کرنے کے بعد ان میں سے ایک نے دیگر تمام مسافروں کو شوٹ کرنے کا حکم دیا جس کے ساتھ ہی فضا گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور انسانی چیخوں سے گونج اٹھی حملہ آوروں نے کارروائی انتہائی سرعت سے مکمل کی اور پھر پہلے سے تیار موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر فرار ہو گئے جبکہ بعد ازاں ہلاک شدگان کی لاشوں اور زخمیوں کو ایدھی، چھیپا ویلفیئر اور خدمت خلق فاؤنڈیشن کی ایمبولینسوں کے ذریعے قریبی اسپتالوں میں پہنچایا گیا جہاں اطلاع ملتے ہی ہلاک و زخمی ہونے والے افراد کے رشتہ داروں کی بڑی تعداد بھی پہنچی اور ان میں شدید غم و غصہ پایا گیا۔ جاں بحق ہونے والوں میں 16 خواتین بھی شامل تھیں تمام مرنے والوں کا تعلق آغا خان کیمونٹی سے تھا اور معمول کے مطابق اپنے کاموں پر جانے کے لیے نکلے تھے۔ ہلاک ہونے والی خواتین میں سے بیشتر اسکول ٹیچر تھیں۔ واقعے کے بعد آئی جی پولیس سندھ غلام حیدر جمالی اور دیگر پولیس حکام بھی موقع پر پہنچے پولیس کے مطابق فائرنگ کا کلاشکوف اور نائن ایم ایم پستولوں سے کی گئی جن کی گولیوں کے خول جائے وقوعہ سے ملے اس کے علاوہ دہشت گرد جس خالی مکان میں چھپے ہوئے تھے وہاں سے بھی پولیس کو نائن ایم ایم پستول کی گولیاں اور ایک پولیس کیپ ملی نسبتاً سنسان اور ویران علاقے میں یہ واحد مکان ہے جسے دہشت گردوں نے فائرنگ سے قبل چھپنے کے لیے استعمال کیا ۔آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی کی اس واردات میں کالعدم تنظیمیں ملوث ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کو جلد پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
رپورٹ: تنویر بیگ