اور اب شکارپور بھی انتہا پسندوں کے نشانے پر
مذہبی رواداری رکھنے والا شہر شکارپور گزشتہ ایک دہائی سے مذہبی شدت پسندی کی زد میں ہے، مہذب اور پرھے لکھے پر امن شہر شکارپور میں دھماکوں کی آوازیں گونجنے لگی ہیں۔ ضلع شکارپور میں مذہبی شدت پسندی زور پکڑ رہی ہے جس کے باعث کئی بیگناہ لوگوں کو زوردار بم دھماکوں میں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ تعلیم کے ذریعے شعور بخشنے اور کاروباری بلندیوں پر پہنچنے والے شکارپور کی بد نصیبی کا آغاز تب ہوا جب دھرتی کے اصل ورثاء ہندوٗں کو ہندو مسلم فسادات کی بنیاد پر دو حصوں میں بانٹنے کی سازش کی گئی۔ شکارپور جس کے لفظی معنی شکارگاہ ہے اس شکارگاہ کو سندھ کا پیرس بنانے والے ہندؤں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ہندوستان سے آنے والی اکثریت نے شکارپور میں سکونت اختیار کی اور شکارپور کے کاروبار اور تعلیم کو پھر اپنے پیروں پر کھڑا کر ہی رہے تھے کہ سندھی مہاجر فصادات کو بنیاد بنا کر اردو بولنے والے سندھیوں کو شکارپور چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ضیاء دور میں جہاد کے نام پر انتہا پسندوں کو تربیت دینے اور افغانیوں کو سندھ میں آباد کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ضیاء کے مارشل لاء کے دور میں جہاں ملک بھر میں انتہا پسندی کو مضبوظ کیا جا رہا تھا، وہیں پر سندھ کے دوسرے اضلاع سے زیادہ شکارپور، جیکب آباد اور کندھکوٹ میں انتہا پسندی کے بیج بوئے گئے۔ 2011 میں یوم عاشورہ پر فرقا واریت کا پیہلا حملہ تحصیل خانپور کے گاؤں نیپیئر آباد میں نیشنل پیپلز پارٹی سندھ کے صدر اور صابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد ابراہیم جتوئی پر دوران مجلس خود کش حملہ کیا گیا، جس میں متعدد لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اس سے قبل 2008ء میں ڈاکٹر ابراہیم جتوئی پر گاؤں جاتے ہوئے حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ معجزانہ طور پر بچ گئے تھے، جب کہ ان کی بلٹ پروف گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی۔ فروری 2013 میں معروف درگاہ حاجن شاہ ماڑی شریف پر بم دھماکہ کیا گیا، جس میں گدی نشین سئیں حاجن شاہ سمیت پانچ افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ ان واقعات سے قبل نیٹوکے آئل ٹینکرز بھی شکارپور میں جلائے گئے تھے۔ ان تمام واقعات کی تا حال کوئی رپورٹ جاری نہیں کی گئی ہے۔ ابھی ان واقعات کی تکلیف ان پر امن رہنے والے شہریوں سے گئی ہی نہیں تھی کہ 30 جنوری 2015 بروز جمعہ شہر کے مرکزی گنجان آبادی والے علاوے لکھیدر پر قائم مرکزی امام بارگاہ کربلا معلیٰ میں ہونے والے زوردار بم دھامکے نے شہریوں سمیت ملک بھر میں بے چینی کی صورتحال پیدا کردی ہے۔ واقعہ ایک بجکر 40 منٹ پر پانچ سے سات کلو وزنی بارودی مواد کے پھٹنے سے ہوا جس میں آخری اطلاعات تک بچون، نوجوانوں ، بزرگوں اور پیش امام علامہ تنویر نقوی سمیت 62 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جبکہ 50 سے زائد لوگ ابھی بھی زخموں سے چور شکارپور، لاڑکانہ، سکھر، پنو عاقل اور کراچی کی اسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ شکارپور سمیت سندھ بھر میں ہوا اپنی نوعیت ک یہ بد ترین واقعہ ہے جس میں بیشتر افراد کے سر دھڑوں سے الگ پائے گئے ہیں۔ اپنے پیارون سے بچھڑنے کا غم انہیں بد حال کئے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں انتظامیہ نے تا ھال تصدیق نہیں کی ہے کہ واقعہ خود کش تھا یا بم نصب کیا گیا تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ نماز جمعہ کے چند منٹ بعد دعائیہ مجلس کے دوران کالا چشمہ پہنے ایک شخص پریشان حال مسجد میں داخل ہوا اور تھیلا سیڑھیوں پر رک کر مسجد کی اوپری منزل کی طرف گیا پھر نیچے آگیا اور صف اول میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے، کونے میں کھڑا ہوگیا۔ اسی وقت ایک دل دھلانے والا زوردار دھماکہ ہوا اور قیامت صغریٰ برپا ہوگئی۔ دھماکے کے بعد ہر طرف دھواں چھا گیا اور علاقے کی عمارات کو شدید جھٹکا لگنے سے اہل محلہ پریشانی کے عالم میں گھروں سے باہر نکل آئے۔ دھامکے کی شدت اس قدر شدید تھی کہ مسجد کی چھت زمین بوس ہوگئی اور مسجد کی چارو اطراف صرف لاشین ہی لاشیں اور انسانی اعضاء بکھرے پڑے ہوئے نظر آئے۔ پانچ بچوں سمیت 15 افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ مجموعی طور پر 62 افراد شہید اور 50 سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔ واقعے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی اور مرکزی امام بارگاہ کربلا معلیٰ لکھی در سمیت پورے علاقے میں بھگدڑ مچ گئی۔ شہر عالم سوگ میں اگیا تمام کاروباری مراکز بند کردئے گئے۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر شکارپور میں قائم تاریخی اسپتال کے برابر میں ایک غڑیا نم بہٹ ہی خوبصورت عمارت میں قائم اسپتال جس میں ڈاکٹروں سمیت دیگر عملہ اور سہولیات نہ ہونا روز کا معمول ہے لیکن شہر میں ایمرجنسی لاگو کرنے کے باوجود اسپتال قساب خانہ نطر آیا۔ جہاں متاثرین سمیت ان کے ورثاء آہ وپکار کرتے ہوئے نظر آئے، پریشانی کے اس عالم میں ان کو کوئی ابتدائی طبی امداد نہ ملی جس کے باعث زخمیوں کی اموات واقع ہوئیں۔ اور تمام زخمیوں کو سکھر، لاڑکانہ کی اسپتالوں میں منتقل کیا جارہا تھا کہ راستے میں ہی بیشتر زخمیوں نے زخموں کی تاب نہ سہتے ہوئے دم توڑ دیا۔
انتظامیہ کی اس بیحسی کو دیکھتے ہوئے حکومت اور پاک فوج نے انتظامات کا ذمہ سر لیتے ہوئے انتہائی تشویش ناک حالت مٰن زخمیوں کو سی 130 طیارے کی مدد سے کراچی کی اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ قائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی شہریار خان مہر نے بر وقت پہنچ کر ڈسٹرکٹ کمشنر شکارپور کے ہمراہ سول اسپتال کا دورہ کیا اور زخمیوں کی عیادت کی۔ واقعے کو بارہ گھنٹے گزر جانے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، اسپیکر سندھ اسمبلی آا سراج خان درانی، قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی خورشید احمد شاہ، شکارپور سے منتخب رکن قومی اسمبلی آفتاب شعبان میرانی اور دیگر کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچ کر شہداء کے لواحقین کو ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے شہداء کے ورثاء کے لئے 20 لاکھ روپے فی کس جبکہ زخمیوں کے لئے 2 لاکھ معاوضہ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ اگر یہ پر امن لوگوں کے خلاف دہشت گردوں کی طرف سے اعلان جنگ ہے تو ہمیں یہ جنگ قبول ہے اور ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔ لوزیر اعلیٰ صاھب نے اعلان جنگ تو قبول کرلیا لیکن کیا وہ ان سوئے ہوئے سپاہیوں اور صحت مراکز سے گم شدہ ڈاکٹرز اور سہولیات سے اس جنگ کا مقابلہ کر سکیں گے یہ حکومت کے لئے ایک انتہائی تشویشناک سوالیہ نشان ہے جس کا ہر ایک شہری خواہ ملکی باشندے کو جواب درکار ہے۔ ایسے واقعات رونما ہونے کے بعد اسباب نظر نہیں آتے اور نہ ہی کسی ملزم کو قانون کے کٹہرے میں لایا جاتا ہے۔ تب یہ سوال ذہن میں جنم لیتا ہے کہ کیا ملزمان اتنے با اثر اور طاقتور ہیں کہ سرے عام دن دہاڑے شہر کے گنجان آبادی کے درمیان ایسی وہشت ناک کاروائیاں کرکے فرار ہوجاتے ہیں اور انتظامیہ کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی انتظامیہ کچھ نہیں کر پاتی۔ یا پھر اس عمل کو حکومت کی ناہلی سمجھا جائے کہ سہولیات ہونے کے باوجود عوام کی ذمہ داریوں سے بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس قرب کے عالم میں محسوس تو یوں ہو رہا ہے کہ ریاست نام کی کسی چیز کا کوئی وجود ہی نہیں جہاں عوام سرے عام مساجد، اسکولوں، گزرگاہوں اور امام بارگاہوں میں مارے جاتے ہیں اور حکومت کو ٹیس تک نہیں آتی۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے لئے اچھا، ساف ستھرا، پر امن، صحت مند اور تعلیم یافتہ ماحول فراہم کرے اور ایسے ادارے قائم کرے جس سے عوام کی بھلائی ہو اور ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ہو سکے۔ مگر یہاں صورتحال مختلف ہے کہ اداروں کی کارکردگی یہ ہے کہ وہ اچھا ماحول ، صحت اور تعلیم تو دور کی بات ہے وہ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ضرورت اس عمل کی ہے کہ ملک میں ہونے والے ایسے دل دہلانے والے دردناک واقعات کو سنجیدگی سے لیکر ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لا کر سخت تری سزائیں دیکر عبرت کا نشانہ بنایا جائے۔
رپورٹ : فرحان مرتضیٰ ابڑو