سانحہ پشاور کے کرب سے گزرنے والی ماؤں کے حوصلے آج بھی بلند ہیں، ہے کوئی پوچھنے والا
پشاور کا آرمی پبلک ایک بار پھر ہنستے مسکراتے معصوم بچوں کی زندگی سے بھر پور آوازوں کیساتھ آباد ہوگیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ماہ قبل گزرے وحشت اور خوف کے لمحات پر مشتمل یادیں ان ماؤں کے دلوں کو خون کے آنسو رلا گئیں جن کے لخت جگر اس بربریت کا نشانہ بنے اور ان ماؤں کی آنکھوں میں بھی تشکر اور آس کے آنسو بہے جن کے دل کے ٹکڑے زندہ بچ گئے، ایسی ہی دو ماؤں نے اپنی اپنی تلخ یادوں کو تازہ تو کیا لیکن ان کی باتوں میں پاکستان کو بدلتا دیکھنے کا عزم بھی واضح نظر آرہا ہے۔
اس واقعے میں جان کی بازی ہار جانے والے 14 سال کے آمیش کی والدہ سمیعہ سلمان نے اپنے دل کا حال کچھ یوں سنایا:
’’ اس دن میں اپنی بہن کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی کہ اچانک میرے کزن کا فون آیا کہ وہ پریشان انداز میں مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ آمیش کہاں ہے، کیا وہ اسکول میں ہے یا نہیں اورپھر اس نے کہا کہ ٹی وی کھولو ، آمیش کے اسکول پر حملہ ہوا ہے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا ۔میں سمجھی کہ انہوں بچوں کو یرغمال بنا لیا ہے لیکن اسکول پہنچ کر پتہ چلا کہ وہاں کا تو منظر ہی کچھ اور تھا، بچوں کی لاشیں باہر آرہی تھیں لیکن میرے لخت جگر کا کچھ پتہ نہ تھا میں نے اسپتالوں کے چکر لگائے، اسکول کے قریبی پارکوں میں تلاش کیا اور قریبی گھروں میں پاگلوں کی طرح ڈھونڈا اور تھک ہار کرچھلنی دل کے ساتھ گھر آکر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر میں آمیش کے والد کا فون آیا کہ اپنے ذہن کو پرسکون رکھو میں آمیش کی لاش گھر لا رہا ہوں یہ الفاظ میرے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھے۔ آمیش کی ہتھیلی پر گولیوں کے لگنے سے بڑا سوراخ نظر آرہا تھا جبکہ ایک گولی اس کے جبڑے سے گزرتے ہوئے اس کی گردن تک چلی گئی تھی، اسے موسیقی پسند تھی وہ میرے کمرے میں آتا تھا اپنے کانوں میں ہیڈ فون لگائے اور اس گانے کو سنا کرتا ’جسٹ ڈونٹ کرائی‘ اور مجھے یہ گانا اچھا نہیں لگتا تھا، اب میں اس گانے کو سنتی ہوں اور محسوس کر سکتی ہوں کہ وہ شاید مجھے کچھ بتانے کی کوشش کر رہا تھا۔
آمیش کی والدہ کا کہنا تھا کہ میں نے اسکول جانے سے قبل آمیش سے کہا کہ وہ آج اسکول نہ جائے اور میرے ساتھ شادی کی شاپنگ کرنے چلے لیکن اس کے والد نے منع کردیا۔ آمیش اس دوران اسکول سے لیٹ ہورہا تھا لیکن میں نے اسے کہا کہ ناشتہ تو کر لو لیکن وہ بضد تھا کہ دیر ہورہی ہے تاہم میرے اصرار پر اس نے ناشتہ کر لیا اور تیزی سے دروازے سے نکل گیا، اور میں نے تو شاید کبھی تصور میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اب اسے دوبارہ اس طرح ہنستا دوڑتا نہیں دیکھ سکوں گی۔ والدہ نے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ آمیش کے ایک دوست کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد آمیش کو اس نے اسکول سے باہر دوڑ کر آتے ہوئے دیکھا لیکن اچانک وہ مڑا اور اسکول میں واپس چلاگیا ہوسکتا ہو وہ کسی کو بچانے گیا ہو۔ میرے پاس اس کا جوتا اب بھی موجود ہے جس میں اس کا خون جما ہوا ہے لیکن میں اس خون کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتی اور اس کے خون کے بدلے پاکستان کو تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتی ہوں۔
17 سال کے محمد کی ماں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 16 دسمبر کے کربناک لمحات کی یادوں کو یوں بیان کیا، میں ان لمحات کو کیسے بیان کروں، اس دن محمد کو امتحانات کی وجہ سے ڈے آف ملا ہوا تھا اس لیے وہ اسکول نہیں گیا جب کہ اس کے کئی دوست اس دن اپنی زندگی کھو بیٹھے۔ جب میں اسکول سیگھر لوٹی تو میں نے محمد کو زارو قطار روتے ہوئے دیکھا، میرا بیٹا بہادر اور ذہین ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ وہ اس واقعے سے خوفزدہ نہیں اور اگر وہ وہاں ہوتا تو اپنے دوستوں اور اپنے ٹیچرز کو دہشت گردوں سے ضرور بچاتا۔
محمد کی والدہ نے مزید کہا کہ اس واقعے نے اس کے دل کو توڑ دیا ہے لیکن جب میں اپنے بچے کو آج دوبارہ اسی اسکول بھیج رہی ہوں تو میں اتنا ضرور کہوں گی کہ پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میں اور میرے بچے ملک کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لے ہروقت تیار ہیں لیکن میں ایک ماں کی حیثیت سے سوچتی ہوں تو اپنے بچے کو اسکول بھیجتے ہوئے میرا دل ڈوبنے لگتا ہے کیوں کہ کوئی ماں بھی اس دن کی طرح اپنے بچوں کا قتل عام نہیں دیکھ سکتی، شہید ہونے والے بچوں میں کوئی مستقبل کا ڈاکٹر تھا اور انجینئر تھا لیکن گولیوں سے چھلنی بچوں کی لاشیں دیکھ کر تو ایک ماں کا دل یہی کرتا ہے کہ بس ان کے بیٹے زندہ ہی رہیں تو کافی ہیں۔ اس کے باوجود میں انہیں اسکول بھیج رہی ہوں لیکن جب تک وہ واپس نہ آجائیں میری روح اور جسم ان کے درمیان تقسیم رہے گا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ اللہ نے مجھے اس آزمائش سے براہ راست نہیں گزارا لیکن میں ان ماؤں کے بارے میں سوچتی ہوں جن کے خواب اس دن ٹوٹ کر بکھر گئے۔