بھارت کی پاکستان دشمنی، سیر کرنے گئے میاں بیوی کومودی پرحملے کا ملزم بنا دیا
پاکستانی شہری عمران اور صوفیہ کی بھارتی قید میں اذیتوں سے بھری ایک انتہائی المناک داستان
وسیم بن علی
یہ واقعات عام ہوتے جارہے ہیں کہ پاکستان سے آنے والے سیاحوں ے ہندوستان میں رہائش پذیر عزیزواقارب سے ملنے کے لیے پہنچنے والے لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان کو خود کش بمبار سمجھ لیا جاتا اور ان پر پولیس کڑی نظر رکھتی ہے ان لوگوں کے ساتھ پولیس کا رویہ جداگانہ طرز کا رہتا ہے۔ پولیس پہلے ہی سے یہ طے کرلیتی ہے کہ پاکستان سے آنے والے لوگ تخریبی کارروائیاں کرنے کی نیت اورا رادہ کے ساتھ یہاں آتے ہیں اُن میں پاکستان سے آنے والے لوگوں ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔
یہ مفروضہ پولیس کے لیے ایک عقیدے کی شکل اختیار کرنا جارہا ہے۔ میڈیا اس کونئی نئی کہانیاں بناکر عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ عام لوگ بھی پاکستان سے آنے ولے لوگوں کو عجیب نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں ان سے سخت معلومات کی جاتی ہیں۔ جن علاقوں میں پاکستان سے آے ہوئے مہمان اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لیے جاتے ہیں’وہاں پولیس ا ن کی پوری نگرانی کرتی ہے اور ان کی حرکات وسکنات کو مشکوک بنادیا جاتا ہے۔ اصل میں مسلمانوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ عرصہ درازسے جاری ہے کہ وہ محب وطن نہیں ہیں اور پاکستان کے ساتھ دہ ہمدردی رکھتے ہیں‘ جس کے نتیجہ میں پاکستان کے لوگ یہاں آخر دہشت گردی کی وردایتیں انجام دیتے ہیں‘ لیکن پولیس کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ دہشت گردی کے الزم میں جن پاکستانیوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا جاتا ہے، جب ان پر عدالتوں میں مقدمات چلتے ہیں تو ان کی بے گناہی ثابت ہوجاتی ہے اور پولیس انہیں مجرم ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ عدالتوں کی طرف سے بہت مرتبہ پولیس کی سرزنش کی جاتی رہی ہے‘ لیکن اس کے باوجود پولیس کے رویہ میں کسی طرح کی اصلاح نہیں ہوئی ہے۔
نیا واقعہ یہ پیش آیا ہے کہ پاکستانی شہری محمد عمران اور اس کی بیوی صوفیہ پاکستان سے آئے ہوئے مہمان ہیں‘ یہ پنے عزیزوں سے ملنے کے لیے آئے تھے اور چونکہ عمران کپڑے کا کاروبار کرتا ہے‘ احمد آباد میں کپڑا تیار کرنے والی ملیں ہیں اُس لئے کپڑے کی صنعت کو دیکھنے کے لیے یہ صنعت کاروں او ردیگر افراد کے ساتھ ملاقاتیں کرتاتھا ور ان سے وقت طے کرکے کپڑے کی صنعت کو فروغ دینے کے بارے میں تبادلہ خیا ل کرتا تھا۔
عمران کو کپڑا ملوں میں آتا جاتا دیکھ کر پولیس کے مخبروں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ ایک پاکستانی جاسوس ہے اور اس کا مقصد کسی بہت ہی خطرناک منصوبے کو پورا کرنا ہے۔ صوفیہ اس کی بیوی اس کے ساتھ آتی جاتی تھی‘ س لئے پولیس نے پنی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے صوفیہ کو بھی ایک پاکستانی جاسوس تسلیم کرلیا۔ اس کے بعد دونوں کو پکڑ نے کے لیے سازش کا جال تیز کیا گیا۔ آخر کار ان دونوں کو گرفتارکرکے ان سے بہت سے ا قبالی بیانات دلوائے گئے، جن میں عمران اور صوفیہ نے پولیس کی خواہش کے مطابق تسلیم کرلیا کہ وہ پاکستان کے جاسوس ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں جاسوسی کی تربیت حاصل کی ہے۔ ان کے پاس سے پولیس نے نریندرمودی کی رہائش گاہ کے نقشے برآمدکئے اور بہت سے کاغذات بھی ان کاجرم ثابت کرنے کے لیے تیار کئے گئے۔ میڈیا کے ذریعہ یہ بات مشتہر کی گئی کہ عمران اور صوفیہ وہ ایسے پاکستانی جاسوس ہیں کہ اگر بروقت پولیس نہ کرتی، تو تاریخ کا ایک انتہائی المناک واقعہ پیش آجاتا اور نریندرمودی کی جان سلامت نہ رہتی۔
عمران اور صوفیہ کے بارے میں پولیس کے ذریعہ بہت سے بیانات شائع ہوتے رہے‘ لیکن سالوں تک مقدمہ جاری رہنے کے بعد عدالت اس نتیجہ پر پہنچی کہ عمران اور صوفیہ پر الزامات ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔
اس طویل مدت کے دوران عمران اور صوفیہ کوکن کن اذیتوں سے گذرنا پڑا‘ یہ ایک انتہائی المناک داستان ہے۔ عمران کا کہنا ہے کہ اس کے والدین اصلاً ہندوستانی تھے اور جب وہ پاکستان گئے تھے‘ تو عمران کی عمر پندرہ سال تھی۔ ہمیشہ اس کی طبیعت میں گجرات کی یادیں آتی رہتی تھیں اور اس کی تمنا تھی کہ وہ اپنا شہراحمد آباد دیکھنے کے لیے ہندوستان آئے۔ اس کی بیوی صوفیہ بھی چونکہ گجرات ہی کے ایک خاندان سے تعلق رکھیہے‘ اس لیے اس کی خواہش بھی یہی تھی کہ وہ اپنے شوہر کے ہم رکاب رہے۔ عمران کا کہنا ہے کہ وہ کپڑے کی صنعت سے وابستہ ہے۔ اس لیے گجرت میں کپڑے کی ملوں کو دیکھنے کے لیے آتاجاتا تھا۔ اس کے وہم گمان میں بھی نہیں کہ جاسوسی کے کہتے ہیں‘ لیکن پولیس نے اسے جاسوس ثابت کرنے کے لیے زمین وآسمان ایک کردیا۔ اس پر دہشت گردی کی وارداتیں انجام دینے کے ا لزامات عائد کئے گئے اور ایسے لوگوں سے اس کے خلاف عدالت میں بیانات دلوائے گئے‘ جن کی شکل وصورت سے بھی وہ واقف نہیں تھا۔ صوفیہ ا س کی منکوحہ بیوی ہے‘ لیکن پولیس نے ا س کو عمرن کی دوست ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور یہ ثابت کرنا چاہا کہ یہ دونوں پاکستان کے بے حد عیار جاسوس ہیں اور ان کا مقصد نریندر مودی کو نشانہ بنانا تھا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ پولیس نے نریندرمودی پر حملہ کرنے کی کوشش کے الزام میں پاکستانی شہریوں کو گرفتار کیا ہےِ لیکن نریندرمودی پر آج تک کوئی عملہ نہیں ہوا‘ بس حملہ کرنے کی کوششوں کا الزام ہی لگایا جاتا رہا ہے۔ پولیس کا اسپیشل دستہ اس طرح کے مواقع پر بے حد مستعدی کا مظہرہ کرتاہے۔ اسپیشل دستہ میں انتہائی ذہن آفسروں کو رکھا گیا ہے‘ جس کا مقصد یہ ہے کہ ایسے نازک مرحلوں میں یہ اسپیشل دستہ بیگناہوں کو گرفت میں آنے سے بچائے لیکن نہ معلوم کیا بات ہے کہ یہ دستہ بھی کوئی قبل ذکر کارنامہ انجام دےئے سے قاصر ہے اور اگر مجرموں کو گرفتار کیا جاتا ہے تو پھران کا جرم ثابت کرنے میں پولیس کا یہ اسپیشل دستہ بے دست دپا کیوں ہے۔
یہاں ایک بے حد اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو بے گناہ پولیس کے جرم کاشکار بنتے ہیں‘ آخران کے لیے قانون میں راحت پہنچانے کو کون سا راستہ منتخب کیا گیا ہے۔ برسہابرس تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد جب بیگناہ عدالت کے حکم سے چھوٹ کرجیل سے باہر آتے ہیں توا ن کے لیے اس دنیا میں زندگی بسر کرنے کی کتنی گنجائش باقی رہتی ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ ایسے لوگ شدید طور پر ذہنی پریشانیوں کا شکار ہوجاتا ہیں اور تباہ حالی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ پاکستان سے آنے والے لوگوں کے بارے میں اس طرح کارویہ کب تک روارکھاجائے گا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس پر انسانی نقطہ نظر سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا حقوق انسانی نقطہ نظر سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا حقوق انسانی کی پاسبانی کرنے والی تنظیمیں انسانی زندگی کے اس پہلو پر غور کریں گی یا پھر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔