بھارتی جیل میں قید پاکستانی ڈاکٹر خلیل چشتی ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں
بے جس پاکستانی حکومت آخر نوٹس کیوں نہیں لیتی؟اب تو بھارتی بھی اپنی حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ خدا کیلئے اس بوڑھے چشتی کو پاکستان جانے دولیکن جہاں بھارتی حکومت خاموش ہے وہاں پاکستانی حکومت بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی
فیکٹ رپورٹ
پاکستانی شہری ڈاکٹر خلیل چشتی نے 20برس سے زائد زندگی اجمیر جیل میں گزار دی ہے ۔ جب ان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالاگیا تھا تو ان کے جسم میں توانائی تھی اور یہ اپنے پاکستانی ہونے پر ناز کرتے تھے۔ جب بطور گالی انہیں پاکستانی کہا جاتا تھا ، تو یہ اپنے سینہ پر ہاتھ مارکر پاکستانی ہونے پر فخر کرتے تھے، لیکن 20سال کی قیدوبندکی صعوبتوں اور مشقتوں نے اب ان کی کمر جھکا دی ہے۔ بہت سے امراض نے بھی ان کو گھیر لیا ہے۔ موت ان کو اپنے قریب آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا خاتمہ پاکستان میں ہو اور وہاں کی زمین میں یہ پیوند خاک ہو جائیں۔ ڈاکٹر خلیل چشتی ایک قابل شخصیت ہیں۔ یہ کئی زبانیں جانتے ہیں۔ شاعری سے ان کی گہری وابستگی ہے۔ جیل میں 20سال سے زیادہ کی زندگی انہوں نے مہذبانہ طور سے بسر کی ہے۔ ان کے علمی ذوق سے جیل کے اچھے عہدیداروں نے بھی فائدہ حاصل کیا ہے۔ دراز مدت تک قید کی سزا بھگتنے والوں نے بھی ان سے فیض بھی کیا ہے۔ اکثر بلند آواز سے یہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں۔لڑنا جھگڑنا تو ان کو آ تا ہی نہیں ہے۔ 20سال کی قید کی زندگی میں انہوں نے کافی شہرت حاصل کی ہے۔ جیل کی چہار دیواری میں باہر کے جو وزیٹرز آتے ہیں۔ وہ ان سے ضرور ملتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک مقبول عام قیدی ہیں۔ ہر ایک سے مسکرا کر بات کرنا ان کی عادت ہے ، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ضعیفی نے ان کو مایوسی سے دوچار کر دیاہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں کسی طرح ان کے وطن پاکستان بھیج دیا جائے۔ گذشتہ 10سال سے یہ اس کوشش میں ہیں کہ ان کے ساتھ رعایت برتی جائے اور ان کو جیل کی سلاخوں سے رہائی دے دی جائے ‘ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی ہر تد بیر الٹی ثابت ہررہی ہے۔ یہ جس قدر منکسرالمزاج ہوئے ہیں‘ حکومت اور جیل حکام اتنے ہی زیادہ سخت گیر ہوتے جارہے ہیں۔ اب معلوم ہوتاہے کہ ان پر پاکستانی ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ کسی طرح کی رعایت نہیں برتی جارہی ہے۔ جبکہ انٹرنیشنل لا ء کے مطابق20سال سے زیادہ عمر کی سزا بھگتنے والے قیدیوں کے ساتھ رعایت برتی جاتی ہے اور ان کو رہا کر دیا جاتاہے۔ مگر ڈاکٹر خلیل چشتی کے ساتھ جیل کا ہر ضابطہ بے حد مضبوطی کے ساتھ نافذالعمل ہے ۔ انسانی حقوق کی فکر کرنے والوں کو اب یہ فکرہے کہ چشتی سلاخوں کے پیچھے ہی دم توڑ دیں گے اور ان کی یہ تمنا پوری نہیں ہوسکے گی کہ وہ پاکستان جا کر آسو دہ خاک ہوجائیں۔
ڈاکٹر چشتی کو 20 برس پہلے اجمیر میں ایک جھگڑے کے دوران گرفتارکیا گیا تھا۔ اس جھگڑے میں کچھ لوگ زخمی ہو گئے تھے اور ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا۔ الزام یہ لگایا گیا کہ گولی ڈاکٹر چشتی نے چلائی تھی۔ نیز یہ کہ وہ درگاہ کی زیارت کیلئے نہیں آئے تھے ، بلکہ ان کا مقصد سرحدی علاقے میں جھگڑے پیدا کرنا تھا۔ مقدمہ چلا ، عدالتی کارروائی میں ڈاکٹر چشتی پھنستے چلے گئے۔ بدقسمتی سے دفاعی کارروائی کمزور رہی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں 20سال کی سزا سنائی گئی۔ اس کے بعد اپیلوں کادور شروع ہوا۔ اس میں بھی سالوں لگ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی سزا برقرار رہی ، لیکن اب ان کی عمر کا آخری حصہ ہے ۔ عمر80سال سے بھی تجاوز کر رہی ہے۔ نہ شام کا اعتماد ہے اور نہ صبح کا بھروسہ ۔ ایسی صورتحال میں انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والی کچھ شخصیتیں سامنے آئی ہیں۔بھارتی صحافی شاہد صدیقی نے کئی مرتبہ اس مسئلہ پر آواز اٹھائی ہے ۔ ان کی آواز ہی کا یہ اثر ہے کہ مہیش بھٹ اور راجستھان ہائیکورٹ کے سابق جج پنا چند جین نے گذشتہ دنوں ہیومن رائٹس کمیشن کے اسٹیج سے حصول انصاف کیلئے آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ڈاکٹر خلیل چشتی کا معاملہ ہندوپاک تعلقات سے ہٹ کر ہے۔ یہ انسانی مسئلہ ہے۔ اس میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کہ چشتی پاکستانی ہیں۔ دونوں ممالک کے اختلافات سے اوپر اٹھ کر اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مہش بھٹ نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس طرح کے غیر انسانی سلوک سے ہما را تمدن مجروح ہوجاتاہے ۔ کیا ہم ڈاکٹر خلیل چشتی کی لاش کو پاکستان بھیجیں گے ، دنیا کا کوئی دوسرا ملک اگر اس طرح کا سلوک ہمارے ساتھ اختیار کرے تو ہمارا رد عمل کیا ہوگا‘ اس لئے ضروری ہے کہ ہم سیاست کو بالائے طاق رکھ دیں اور یہ خیال کریں کہ جس طرح ہمارے ملک میں بوڑھے لوگ ہماری ہ مدردی اور رحم دلی کے مستحق ہیں، اسی طرح ڈاکٹر خلیل چشتی بھی ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں۔ یہ بات ناپسندیدہ ہے کہ ہم انسانی ہمدردی اور اخلاقی قدروں کے درمیان اختلافات کو حائل کر دیں اور کسی نیک کام کو انجام دینے سے رک جائیں۔ بیس سال کا عرصہ بہت طویل ہوتاہے، بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اتنی مدت تک جیل میں رہیں۔80سال کی عمر میں بھی جیل میں رہنا انتہائی تکلیف دہ بات ہے۔ ڈاکٹر خلیل چشتی کے عزیز واقارب پاکستان میں دعائیں کررہے ہیں کہ وہ آنکھیں بن ہونے سے پہلے پاکستان پہنچ جائیں۔ تعصب کے شکار لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ دل کی آنکھیں کھولیں اور انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ فوری طور پر ڈاکٹر خلیل چشتی کو پاکستان بھیج دیں۔ تاریخ میں بعض مواقع ایسے آتے ہیں جب کوئی غلط فیصلہ کسی قوم کے چہرے کو بگاڑ دیتا ہے ، اس کے برعکس اگر اخلاقی قدروں کے چہرے کو بگاڑ دیتا ہے اس کے برعکس اگر اخلاقی قدروں کے ساتھ کوئی نیک فیصلہ کیا جائے تو تاریخ میں اسے سنہری الفاظ میں لکھ دیا جاتاہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم کس طرح کا تصور اپنے بارے میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر خلیل چشتی اجمیر کی جیل میں ایڑیاں رگڑتے ہوئے آخری ہچکی لیں گے یا ہم یہ پسند کریں گے کہ وہ اپنے لبوں پر مسکراہٹ لئے ہوئے اپنے وطن پاکستان واپس چلے جائیں ۔ انسانی قدروں کے تحت یہ لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔ ڈاکٹر خلیل چشتی نے کورٹ میں بھی کہا تھا کہ جو کچھ ہوا‘ وہ ایک اتفاقی امر تھا جس میں ان کے ارادہ کا دخل نہیں تھا، لیکن قانونی موشگافیوں کی وجہہ سے ان پر قتل کا الزام ثابت ہو گیا ، جس کی وجہ سے ان کی زندگی کابڑا حصہ جیل میں گزر گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ اپنی زندگی کے باقی لمحات خلیل چشتی جیل میں گزارتے ہیں یا پھر حقوق انسانی کے علمبردار ان کو رہائی دلائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انجام کار کیا ہو گا‘ ڈاکٹر خلیل چشتی اجمیر جیل سے رہا ہو کر پاکستان پہنچتے ہیںیا پھر ان کی تقدیر میں یہی لکھا ہے کہ وہ اجمیر جیل میں ہی فوت ہوجائیں؟