لوگوں میں پیشہ ورانہ صلاحیت تقریبا ختم ہو چکی ہے، بابرہ شریف کا انٹرویو
شوبز رپورٹر
فلم انڈسٹری کے لئے بابرہ شریف کا نام کی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔ انہوں نے ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ فین کے دل چرائے ہیں۔ ماڈلنگ ڈرامہ ، فلم نیز ہر میڈیم میں انہوں نے نہ صرف اپنی مختلف شناخت بنائی ہے بلکہ اسے قائم بھی رکھا ہے ۔ سوچیں تو یہ بڑا عجیب سالگتا ہے کہ عین اپنے عروج کے دور میں انہوں نے فلم انڈسٹری کو خیربار کہہ دیااور اپنی زندگی اپنے انداز سے گذارنے لگیں لیکن اپنی ماڈلنگ کے ذریعے جب وہ واپس شائقین میں آئیں تو دیکھنے والے حیران رہ گئے کہ گزرتے وقت کی کوئی بھی پرچھائی ان کے چہرے پر ڈھونڈے سے نظر نہ آئی اور اپنے سے کہیں جونیئر ماڈلز کے ساتھ کھڑی بابرہ نے سب سے زیادہ توجہ کھینچی۔ ان کی گئی گفتگو نذر قارئین ہے۔
شوبز میں کیسے آنا ہوا؟
میری بڑی بہن کمرشلز میں کام کرتی تھی۔ ایک دفعہ کچھ لوگ کمرشلزمیں میری بہن کو کاسٹ کرنے کیلئے گھر آئے ۔میں اسی وقت اسکول سے آئی تھی۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی ابا سے کہا کہ وہ اپنے کمرشل میں مری بہن کی بجائے مجھے کاسٹ کرنا چاہتے ہیں۔ میں یہ سن کر بہت نروس ہوگئی اور میرے ابا نے بھی انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ابھی وہ بہت چھوٹی ے تاہم انہیں ان کے کمرشل کیلئے ایک سکول گرل کی ضرورت تھی ۔ اس لئے آخرکار انہوں نے مجھے کاسٹ کرہی لیا اور اس کے بعد میں نے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا ۔مجھے بہت سے پراجیکٹ ملتے گئے اور اس طرح شوبز میں میری عملی زندگی کا آغاز ہوا۔
فلمی زندگی کا آغاز کب ہوا؟
ٹی وی پر مسلسل ڈرامے کرنے کے بعد میں انے اپنی پہلی فلم ایک سال کے اندر اندر سائن کر لی ۔صرف13 سال کی عمر میں میڈم شمیم آراء کے ساتھ اپنی پہلی فلم کی۔ پہلی فلم’’ بھول‘‘ میں میں نے اسپورٹنگ رول کیا لیکن میری اگلی فلم غلام محی الدین کے مقابل ہیروین کا رول لئے ہوئے تھی جو کہ بلاک بسٹر ثابت ہوئی ۔ جس کانام تھا’’ محبت‘‘ ،اس فلم کے مرکزی رول نے میرا اعتماد بڑھادیا اور مجھے دنیا جہاں میں ایک شناخت دی بس پھر میں نے ہمیشہ ہیروئن کے رول ہی کئے۔
کیمرے کے سامنے کبھی گبھراہٹ نہیں ہوئیَ؟
میں کبھی بھی کیمرے سے نہیں شرمائی لیکن سیٹ پر موجود لوگوں سے الگ تھلگ ہی رہتی ۔ آہستہ آہستہ میں فلم انڈسٹری کی ضرورت بنتی گئی تو وقت کے ساتھ ساتھ اعتماد میں اضافہ ہی ہوتا رہااورانڈسٹری کا ماحول گھر جیسا لگنے لگا آپ میں صلاحتیں ہوں تو اپنا آپ منوا لیتی ہیں۔ اسپاٹ بوائے سے لے کر ڈائریکٹرز تک میرے اخلاق کی تعریف کرتے تھے ۔ میں نے اپنے فلمی کیریئر میں اپنی خوش مزاجی کی وجہ سے ڈھیروں دوست بنائے۔ میں اس لحاظ سے خود کو بہت کوش قسمت سمجھتی ہوں کہ اس زمانے کی کامیاب ترین اداکاراؤں میں شمار ہوا لیکن ناقابل یقین بات یہ ہے کہ اتنی شہرت اور پسندیدگی کے باوجود میں نے صرف 150فلموں میں کام کیا۔ میں نے ہمیشہ کوالٹی پرتوجہ دی اور میں سمجھتی ہوں کہ کامیابی کبھی بھی مقدر کی محتاج نہیں ہوتی ۔ بلکہ ہمیشہ معیاری کام ہی اپنا آپ منواتا ہے۔ اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہو ڈھیر سارا کام کریں گے تبھی وہ دوسروں کی توجہ سمٹ سکتے ہیں لیکن یہ خیال غلط ہے ، اس سے کبھی بھی آپ اپنی انفرادی شناخت نہیں بناسکتے ۔ آج کل رواج بن چکا ہے کہ ایک اداکار ہر فلم میں ، ہر ڈرامے میں نظر آتا ہے لیکن یہ صحت مند رجحان نہیں ہے۔ اتنا کام معیار اور شخصیت کو ابھارنے میں ناکام رہتا ہے۔ لوگ آپ کا انتظار کریں گے تو محبت کیسے کریں گے۔
بہت سے فنکار پروڈکشن اور ڈائریکشن کے میدان میں آرہے ہیں‘ اس رجحان کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
یہ ایک خوبصورت تبدیلی ہے کہ اداکارپروڈکشن اور ڈائریکشن میں آرہے ہیں جیسے کہ ریما اور جاوید شیخ صاحب یقیناًان کا کام تجربے کی وجہ سے معیاری ہو گا کیونکہ ان کے پاس کام کا تجربہ ہے۔ اس طرح سے وہ انڈسٹری کے مسائل کو بھی سمجھتے ہیں، اور بہتری لاسکتے ہیں۔
آجکل کیسا کام ہورہا ہے؟
اب ہر چیز میں بناوٹ آچکی ہے اداکاروں کے میک اپ اور ہیئراسٹائل سے لے کر ان کے تاثرات بھی تصنع سے پر ہیں۔ میں اپنے فلمی کیرئیر کے آغاز پر مسرت نذیر سے بہت متاثر تھی مگر انہوں نے اپنی شہرت کی انتہا پر فلموں میں کام کرنا بند کر دیا میں بھی چاہتی تھی جب میں عروج پر پہنچ جاؤ تو ادکاری چھوڑ دوں اور میں نے ایسا ہی کیا۔ مجھے اس پر بالکل شرمندگی نہیں یہ بلاشبہ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ تھا۔ آج کل لوگوں میں پیشہ ورانہ صلاحیت تقریبا ختم ہو چکی ہے۔ ہر کوئی دوسرے پر تنقید کرنے میں مصروف ہے ۔ ہم ایک فلم دیکھتے ہیں اور اس پر تنقید کرکے اداکاروں کے پر مشقت کام کو رد کر دیتے ہیں ۔ جو کہ غلط ے تنقید ہمیشہ اصلاح کیلئے ہونی چاہئے ۔ ہماری اپنی تہذیب وثقافت ہے لہٰذا ہمیں دوسروں کی نقل نہیں کرنی چاہئے ، بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے کام کریں تو زیادہ بہتر ہو گا اور ترقی پائیں گے۔