القاعدہ کا نیا سربراہ ایمن الظواہری،پرآسائش زندگی سے دہشت گرد ی تک کا سفر
فیکٹ رپورٹ
القاعدہ کے نئے سربراہ ایمن اظواہری نے مصر کے ایک خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی تاہم ان کی زندگی کے تجربات نے انہیں ایک شدت پسند مسلم جنگجو میں تبدیل کردیا۔اپنی تعلیم کے لحاظ سے وہ ایک سرجن ہیں اور ایک متشدد نظریاتی شخص بننا ان کا اپنا انتخاب تھا۔ اب وہ اسامہ بن لادن کی جگہ القاعدہ کی سربراہی سنبھال رہے ہیں جنہیں گزشتہ ماہ امریکی کمانڈوز نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک خفیہ کارروائی کرکے ہلاک کردیا تھا۔
الظواہری کو القاعدہ میں اسامہ کے نائب کی حیثیت حاصل تھی اور وہ طویل عرصہ تک اپنی تنظیمی اور جنگی صلاحیتیں القاعدہ کو موثر بنانے کے لیے استعمال میں لاتے رہے۔ الظواہری ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے خود کش حملوں کے استعمال اور آزادانہ طور پر کام کرنے والے دہشت گرد مراکز کی حوصلہ افزائی کی۔ان کے نزدیک جہاد یا مقدس جنگ کا مشن واضح تھا۔ ’’امریکہ اور اس کے اتحادیوں خصوصاً اسرائیل کو ہر ممکن طور پر زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانا۔‘‘
الظواہری کے بارے میں امریکہ کو شبہ ہے کہ وہ پاک افغان سرحد کے نزدیک پہاڑی علاقوں میں کہیں روپوش ہیں۔ امریکہ نے ان کی گرفتاری میں مدد فراہم کرنے پراڑھائی کروڑ ڈالرز کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔
اکثر اوقات منظرِ عام پر آنے والے اپنے ویڈیو پیغامات میں الظواہری تسلسل سے یہ بات کہتے رہے ہیں کہ القاعدہ اپنی جنگ اس وقت تک جاری رکھے گی جب تک مغربی طاقتیں ’’مسلمانوں کی سرزمینوں‘‘سے واپس نہیں چلی جاتیں۔
کہا جاتا ہے کہ الظواہری نے ڈاکٹروں اور دانشوروں کے ایک خوشحال مصری گھرانے میں آنکھ کھولی تاہم نوجوانی ہی میں ان کا رجحان اسلامی شدت پسندی کی جانب ہوگیا تھا۔دیگر کئی نوجوان مصریوں کی طرح الظواہری بھی 1960ء کی دہائی میں جمال عبدالناصر کی سوشلسٹ حکومت کی جانب سے اسلام پسندوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے دلبرداشتہ ہوئے۔ اس دوران مصری حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
1967ء کی جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں مصر کو ہونے والی شکست نے الظواہری کے احساس خفت کو مزید بڑھاوا دیا اور اسی احساس کے تحت انہوں نے میڈیکل کی تعلیم کے دوران ایک مسلح شدت پسند تنظیم’’مصری اسلامی جہاد‘‘کی تشکیل میں مدد دی۔
الظواہری 1980ء میں پہلی بار پاکستان آئے۔ وہ اس وقت انجمنِ ہلاِلِ احمر سے منسلک تھے اور ان کے دورے کا مقصد پڑوسی ملک افغانستان پر قابض سوویت افواج سے لڑائی میں زخمی ہوکر پاکستانی شہر پشاور آنے والے افغانوں کو طبی امداد فراہم کرنا تھا۔ وہ اسی برس افغانستان بھی گئے۔بعد ازاں مصر واپسی پر 1981ء میں صدر انورالسادات کے قتل کے الزام میں انہیں بھی سینکڑوں دیگر مصری شہریوں کے ہمراہ گرفتار کرلیا گیا۔ وہ اس الزام سے تو بری ہونے میں کامیاب ہوگئے تاہم غیرقانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں انہیں تین برس قید کاٹنی پڑی۔1984ء میں اپنی رہائی کے بعد الظواہری افغانوں کو سوویت یونین کے خلاف جدوجہد میں مدد فراہم کرنے کے خیال سے پشاور لوٹ گئے جہاں انہوں نے اسامہ بن لادن کے ساتھ قریبی تعلق استوار کیا اور ان کے ذاتی معالج کی حیثیت سے ان سے منسلک ہوگئے۔
1998ء میں الظواہری نے اسامہ کے ساتھ باقاعدہ اتحاد قائم کرتے ہوئے ان کے نائب کا عہدہ سنبھال لیا۔ اسی برس امریکہ نے ان پر کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر ہونے والے بم حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا۔
الظواہری پر امریکہ پر گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں میں بھی سرگرم کردار ادا کرنے کا شبہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری افغانستان میں موجود القاعدہ کے رہنماؤں نے قبول کی۔ بعد ازاں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد الظواہری بن لادن کے ہمراہ روپوش ہوگئے تاہم اس حملے کے نتیجے میں افغانستان سے طالبان حکومت کا خاتمہ ہوگیا جنہوں نے القاعدہ کے دہشت گرد نیٹ ورک کو پناہ دے رکھی تھی۔
الظواہری کی امریکہ کے خلاف نفرت میں ذاتی وجوہات کا بھی عمل دخل ہے کیونکہ دسمبر 2001ء میں جنوبی افغان صوبہ قندھار پر کیے گئے ایک امریکی فضائی حملے کے دوران الظواہری کی اہلیہ اور ان کے کم از کم دو بچے ہلاک ہوگئے تھے۔بعد ازاں اسامہ بن لادن کے منظرِ عام سے غائب ہوجانے کے بعد الظواہری نے پاک افغان سرحدی علاقے میں القاعدہ کی تنظیمِ نو کی اور تنظیم کا نیا چہرہ بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے اس دوران امریکہ پر تنقید پر مشتمل کئی آڈیو اور ویڈیو پیغامات جاری کیے۔ایسی کئی ویڈیوز میں باریش الظواہری اپنے انگلیوں سے اشارہ کرتے اورموٹے شیشے والے چشمے کے عقب سے جھانکتے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کو انہیں پاکستان کے قبائلی علاقے میں کئی بار قتل یا گرفتار کرنے کا موقع ملا تاہم وہ ہر بار بچ نکلے۔آئندہ ہفتے اپنی 60 ویں سالگرہ منانے والے الظواہری اب بھی مفرور ہیں اور اب انہوں نے القاعدہ کی سربراہی بھی سنبھال لی ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ الظواہری القاعدہ کو کہاں پہنچاتے ہیں ؟اور وہ خود امریکہ سے بچنے کی کوششوں میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں ۔