کیا آئی ایس آئی کی بنیاد آسٹریلوی باشندے نےرکھی تھی؟اہم اورحیران کن رپورٹ
افغان جنگ نے قسمت بدل دی لیکن آئی ایس آئی نے
جہادی گروپوں کی حمایت جاری رکھی اور اب انہوں نے
اس کا ناک میں دم کیا ہوا ہے
ایم ارشد
آپاکستان کے ارکان پارلیمنٹ کو آئی ایس آئی کی بریفنگ تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جو اس سے قبل وقوع پزیر نہیں ہوا ۔تاہم اس سے جہاں آئی ایس آئی کی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے وہاں دنیا بھر میں آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈہ بھی زور پکڑ گیا ہے۔ایسا پہلی بار ہوا کہ کہ کسی خفیہ ادارے نے اپنے آپ کو ملکی پارلیمان کے تابع قرار دیا ۔
اس دوران دنیا بھر کی نظروں میں جانٹے کی طرح کھٹکنے والی آئی ایس آئی کے بارے میں پہلا حیران کن انکشاف یہ سامنے آ یا کہ اس کی بنیاد ایک آسٹریلوی باشندے نے ڈالی تھی۔کیا یہ بات درست ہے ۔ بظاہر اس کے شواہد تو نہیں ملتے لیکن یہ ممکن بھی ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں فوجی تاریخ پر بہت پرانا میٹریل دستیاب نہیں ہے ۔تفصیل اس امر کی کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ جیسے ہی پاکستان بھارت کے ساتھ 1948 کی جنگ سے باہر آیا برطانوی فوج سے عارضی تبادلے پر آئے میجر جنرل آر کوتھرون نے محسوس کیا کہ نہ تجربہ کار پاکستانی فوج کو ایک مناسب انٹیلی جنس ادارے کی ضرورت ہے۔چنانچہ انہوں نے اس ایجنسی کے بنیادی خدو خال واضح کئے۔
اس بات کا ذکربرطانوی اخبار ’’گارڈین ‘‘ نے اپنی 12مئی کی اشاعت میں ڈیکلن والش کی آئی ایس آئی پر ایک رپورٹ میں کیا ہے۔ اس رپورٹ میں ایجنسی کی تاریخ اور کردار پر نظر ڈالی گئی ہے۔اس رپورٹ میں کئی حیران کن باتیں کی گئی ہیں ۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیسے آئی ایس آئی وجود میں آئی ۔رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی کے لیے ابتداء کے دس سال کچھ اچھے نہیں رہے اور تنظیم 1965 کی جنگ میں بری طرح ناکام رہی اور 1971 میں مشرقی پاکستان میں جاری شورش کو پہچاننے میں بھی ناکام رہی جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا۔تاہم حالات دسمبر 1979 میں بدلے جب افغانستان میں سوویت ٹینکوں نے چڑھائی کر دی۔
1989 میں افغانستان سے روسیوں کے انخلاء کے بعد سی آئی اے نے پاکستان کو تقریباً خیر باد کہہ دیا تھا لیکن آئی ایس آئی میں جہاد کا جذبہ باقی رہا۔ آئی ایس آئی کے پاکستانی افسران میں اس نظریے نے اس خفیہ ایجنسی کی شکل ہی تبدیل کر دی۔ آئی ایس آئی نے پورے ایشیا یعنی بنگلہ دیش، ازبکستان، برما اور بھارت میں اسلامی گروپوں کی حمایت شروع کر دی۔ایک دہائی تک چلنے والی اس جنگ میں امریکہ نے مالی مدد فراہم کی، افغان اور عرب اس میں لڑے لیکن اس جنگ کی بساط پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آئی ایس آئی نے بچھا رکھی تھی اور یہیں سے اس ایجنسی کی قسمت بدل گئی۔
ایجنسی نے افعانستان کی سرحد پر خفیہ ٹریننگ کیمپ بنا رکھے تھے جس میں اسی ہزار سے زائد جنگجوؤں کوجہاد کی ٹریننگ دی گئی۔ آئی ایس آئی اسلحے کی پائپ لائن کو کنٹرول کرتی تھی جس کی مالی امداد امریکہ کی سی آئی اے اور سعودی انٹیلی جنس کر رہی تھی۔اس پائپ لائن کے ذریعے کراچی سے خیبر پاس تک کلاشنکوف اور توپ شکن میزائل سمگل کی جاتی تھیں۔اس طرح یہ ایجنسی طاقتور اور دولت مند ہوتی گئی۔
نوے کی دہائی میں آئی ایس آئی نے افغانستان میں طالبان تحریک کی حمایت شروع کر دی اور طالبان رہنما ملا عمر کو مشورے دینے کے لیے کرنل امام کو افغانستان بھیجا گیا۔اخبار کے مطابق ایجنسی کی اس بدلتی شکل کو درست کرنے کے لیے ایک سیکولر ذہن کے افسر جاوید اشرف قاضی کو ایجنسی کا سربراہ تعینات کیا گیا۔ انہوں نے ’’ گارڈین‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایجنسی کے سبکدوش ہونے والے سربراہ جاوید ناصر تھے جو پلے بوائے سے ایک کٹر ملا میں تبدیل ہو چکے تھے، اسلامی ڈاڑھی رکھ لی تھی اور عورتوں سے ہاتھ ملانے سے انکار کرتے تھے۔‘ اور تبلیغی اجتماعوں میں شریک ہوتے تھے۔جاوید اشرف قاضی کا کہنا تھا ’میں نے وہاں جو دیکھا وہ چونکا دینے والا تھا۔
جاوید اشرف قاضی کے مطابق اس وقت آئی ایس آئی کے سینیئر افسر یونیفارم کے بجائے شلوار قمیض میں ملبوس ہوتے تھے اور ان کے ماتحت کئی گھنٹوں تک مسجد چلے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ آئی ایس آئی نے بینکاک میں ایک ہوٹل خریدا ہوا تھا جس کا مقصد البتہ ہتھیاروں کے کاروبار میں مددگار فراہم ہونا تھا۔
جاوید اشرف قاضی نے ایجنسی سے انتہا پسندوں کا صفایا شروع کیا، بینکاک کا ہوٹل فروخت کیا اور اپنے ماتحتوں سے باقاعدہ یونیفارم پہننے کو کہا لیکن پھر بھی آئی ایس آئی کاجہادجاری رہا۔
گزشتہ ایک دہائی میں آئی ایس آئی جہادکو ترک کرنے کا پروپیگنڈا کرتی نظر آتی ہے۔2001 میں جب امریکی اسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان پہنچے تو سابق صدر پرویز مشرف نے طالبان سے نظریں پھیر لیں اور اس کے بعد جنوری میں انہوں نے جہادی گروپوں کا خاتمہ کرنے کا عزم کیا۔
دیکھنے میں حالات کچھ اور تھے اور حقیقت میں کچھ اور۔ گزشتہ برس وکی لیکس کے کیبلز میں دعویٰ کیا گیا کہ آئی آیس آئی ابھی بھی چوری چھپے افغان طالبان، لشکرِ طیبہ اور حقانی گروپ کی حمایت کر رہی ہے۔لیکن اب آئی ایس آئی بھی جہادی تشدد کا نشانہ بنی ہے۔ پاکستانی طالبان کی سوچ ہے کہ آئی ایس آئی نے ان کو دھوکا دیا ہے لہذآ وہ اب اس کے دشمن ہیں۔ پاکستانی طالبان افغان طالبان سے الگ ہیں، القاعدہ سے متاثر ہیں اور ان کا پاکستانی ریاست پر قبضہ کرنے کا عزم ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں ہونے والے بم حملوں میں سینکڑوں آئی ایس آئی اہلکار مارے گئے ہیں اور قبائلی علاقوں میں طالبان کئی مغوی آئی ایس آئی اہلکاروں کو سر قلم کر کے ہلاک کر چکے ہیں۔
قارئین ! اس رپورٹ میں کتنا پروپیگنڈہ ہے اور کتنی حقیقت ، یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس رپورٹ کی تیاری میں بھی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جاوید اشرف قاضی اور اسی طرح کے دیگر لوگوں نے مدد کی ہو گی جو مغرب کے زیادہ قریب ہیں اور کچھ عرصہ بعد آئی ایس آئی کے بارے میں بولتے رہتے ہیں ۔
intresting story. buhat kushi huwai. because is main achi information haian.
Hina
ecxellent information,great work by fact….and v proud and support ISI…ameicans idiot r trying to defame our isi…..somewhat v r alive nation…
nice history.i dont think that ISI was established by austrailian , these were the efforts of muslim leaders, one thing in which i have confusion , it is written that ISI is working under parliament, it istotaly wrong, if we are safe today that is just because of ISI, proud to be pakistani and we are proud that we have agency like ISI…