ولی بابرقتل کیس،جیوٹی وی کا ملازم بھی ملوث نکلا، گرفتار سرغنہ نے پول کھول دیا
شہید کے کولیگ نے قاتلوں کے گروہ کے سرغنہ کو اپنی سرپرستی میں جیونیوز کراچی
کے دفتر کا دورہ کروایا تھااور اس کے موبائل سے ولی خان بابر کی تصویریں لی تھیں
دانیال دانش
ولی خان بابر قتل کیس کی گتھی سلجھنے کے قریب ہے ،گرفتار ملزمان اور ان کی سیاسی وابستگیاں ظاہر ہو چکی ہیں۔تاہم صحافی برادری کیلئے چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ قتل میں جیو ٹی وی کا ملازم بھی ملوث ہے۔ جیوٹی وی کی انتظامیہ نے قتل میں ملوث ملزم پولیس کے حوالے نہیں کیا ،نا ہی پولیس کی جانب سے اس شخص کا نام ظاہر کیا جارہا ہے ،جو صحافیوں میں کالی بھیڑ ہے ،صحافتی حلقوں میں ایک دوناموں پر انگلیاں اٹھائیں جارہی ہیں۔ذرائع کے مطابق ولی خان بابرشہید کے ایک کولیگ نے قاتلوں کے گروہ کے سرغنہ کو اپنی سرپرستی میں جیونیوز کراچی کے دفتر کا دورہ کروایا تھااور اس کے موبائل سے ولی خان بابر کی تصویریں لی تھیں۔اس بات کا انکشاف جے آئی ٹی (جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم )کے سامنے زیر حراست ملزم نے کیا،قاتلوں کے گروہ کے سرغنہ فیصل عرف موٹااور ذیشان نے وہ تصویریں چھبیس قاتلوں پر مشتمل گروہ کے ارکان میں تقسیم کیں۔ جیو کے ملازم نے شہید کے گھر کا پتہ اوردفتری اوقات کار بھی موٹا کو فراہم کیں۔ان تمام باتوں کا اعتراف ملزم نے جے آئی ٹی رپورٹ میں کیا۔
فیصل عرف موٹا جو کیس میں سب سے اہم ملزم کے طور پر سامنے آیا ہے ،جبکہ گرفتار ملزمان نے پچیس مزید افراد کے نام لئے ،جن میں محمد ایوب،عمران،ذیشان عرف راجہ،آصف عرف وسیم کمانڈو،لیاقت ،ناصر اقبال،فہمید،شاہد عرف کمانڈو،جاوید شیخ،چاند،ابرار،دلشاد،خالد سعید،سمیع،ایوب آرائیں،طاہر نوید عرف پولکا،ناصر عرف گنجا،راجہ نسیم،شریف موٹا،محمد شکیل،منور اقبال،فیضان اور جمیل شامل ہیں۔
سید محمد علی رضوی نامی گرفتار ملزم نے دوران تفتیش جی آئی ٹی کو بتایا کہ قتل سے بارہ دن قبل فیصل عرف موٹا اور آصف عرف وسیم کمانڈو کو ساؤتھ افریقہ سے آغا مرتضیٰ نے ولی خان بابر کو مارنے کا حکم دیا تھا۔جس پر سات جنوری کو موٹا نے اپنے گھر پر ایک میٹنگ بلوائی ،جس میں گروہ کے ارکان کو مختلف ٹاسک دئیے گئے۔
جی آئی ٹی رپورٹ کے مطابق زیر حراست علی نامی ملزم نے بتایا کہ موٹا اور گروہ کے دیگر ارکان نے ولی خان بابر کاتین مختلف مقامات پر پیچھا کیا،پہلے نمبر پر نارتھ ناظم آباد کے بلاک این میں واقع رہائشگاہ سے فالو کیا گیا،دوسرے نمبر پر پشاوری آئس کریم شاپ سے پیچھا کیا گیا جو کہ ولی خان بابر کی رہائشگاہ کے قریب واقع ہے۔جبکہ پیچھا کرنے والی تیسری ٹیم نے شپ اونر کالج سے شہید کو فالو کرنا شروع کیا۔
زیر حراست شاہ رخ نے بتایا کہ اسے ولی خان بابر کا دفتر سے پیچھا کرنے کا کہا گیا تھاکیونکہ موٹا اور ذیشان کو ڈر تھا کہ انہیں پہچان نہ لیا جائے۔واضح رہے کہ دونوں ملزمان اس سے قبل ولی خان بابرکے دفتر کادورہ کرچکے تھے۔اس کے ذمے یہ کام لگا یا گیا تھا کہ وہ گروہ کے دیگر ارکان کو رپورٹر کی صحیح جگہ پر موجودگی بتائیں۔
شاہ رخ نے بتایا کہ موٹا نے اسے بتایا تھا کہ ولی خان بابر اگر اپنے دفتر سے اے این پی کے صوبائی دفترمردان ہاؤس کی جانب جائے تو اس کا پیچھا نہ کیا جائے ،تیرہ جنوری کو گلشن عظیم میں ایک میٹنگ بلوائی گئی ،جس میں بارہ سے چودہ افرادموجود تھے ،وہاں پر موٹا نے تین ٹیمیں بنائی جن میں سے پہلی آپریشنل ٹیم تھی ،جو کہ ایک کار میں سفر کر رہی تھی جسے نوید پولکا ڈرائیوکر رہا تھا۔کار میں فیصل ،علی رضوی،ذیشان اور سعید عرف گنڈیری سوار تھے۔جبکہ باقی تین افراد موٹر سائیکلوں پر سوار تھے ،جن کا کام آپریشنل ٹیم کو کور فراہم کرنا تھا۔
جب ولی خان بابر آفس سے روانہ ہوا تو شاہ رخ نے اس کا پیچھا شروع کردیا اور فون پر اس کی موجودگی کی اطلا ع دیدی۔جبکہ نوید اور شکیل آپریشنل ٹیم کی کار کوایک طرف سے جبکہ اسد اور ذیشان دوسری جانب سے کور کر رہے تھے ،جبکہ یہ تمام شاہ رخ کو فالوبھی کر رہے تھے جو کہ ولی خان بابر کی گاڑی کا پیچھا کر رہا تھا۔لیا قت آباد نمبر ایک پر ٹریفک جام کے دوران شاہ رخ نے ولی خان بابرکی کار کی جانب اشارہ کیا ،جس پر ذیشان نے سات سے آٹھ گولیاں دائیں طرف سے ماریں،اسی دوران گروپ کے دیگر افراد نے بھی فائرنگ شروع کردی۔واقعہ کے فوری بعد گروہ کے تمام ارکان فرار ہوگئے اور موٹا کے گھر کے بی آر سوسائٹی میں اکٹھے ہوئے اور اپنے ہتھیار جمع کرادئیے۔
قتل کے اگلے دن موٹا نے بتایا کہ پولکا کی گاڑی کا رجسٹریشن نمبر نوٹ کر لیا گیا ہے ،اور پولیس اس کی گرفتاری کیلئے چھاپے مار رہی ہے۔پھر اس نے گروہ کے افرادکو ایک کار فراہم کی اور شہرکو فوری طور پرچھوڑنے کا کہا۔تاہم ابھی وہ حیدرآباد کیلئے روانہ ہونے کا سوچ ہی رہے تھے کہ انہیں گلشن اقبال میں گرفتار کر لیا گیا۔