بھٹو کی پھانسی پرسیاست،عدالت کا وقارداؤپرلگانے میں حکومت برابرکی شریک
شاہ عالم اصلاصی
آصف علی زرداری نے اپنے خسر اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پھانسی کے مقدمہ کو ری اوپن کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس نے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی بحث کا آغازکر دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے ریفرنس وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ میں دائر کر دیا گیاہے۔ اس بات کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب بھٹو کی اپنی سیاسی جماعت ملک میں برسر اقتدار ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی تین مرتبہ اقتدار میں آ چکی ہے لیکن اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ صدر آصف علی زرداری کو اپنی شریک حیات سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں اتنی دلچسپی کیوں نہیں ہے اور وہ اس معاملے میں اتنے سرگرم کیوں ہیں۔ کیا اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کی توجہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی جیسے حساس ایشو سے ہٹانا چاہتے ہیں یا خسر کی پھانسی کو پاکستان میں سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، کیونکہ پارٹی کارکنان میں کہیں نہ کہیں کسک موجود ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کی پیپلز پارٹی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ وہ غریبوں سے ملتے تھے مگر زرداری کو دیکھنے کے لئے عوام ترس گئے ہیں۔ ان کے مطابق بھٹو اپنے مشیروں سے کم مشورے لیتے تھے مگر زرداری مشیروں کی باتوں پر قوم کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں اس کے باوجود کہتے ہیں ’’بھٹو کی روح مجھ میں بولتی ہے۔‘‘بعض ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ حکومت ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ کو دوبارہ کھول سکتی ہے جب کہ ایسے قانونی ماہرین بھی ہیں جن کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست مسترد کر چکا ہے۔ اس لیے اب یہ مقدمہ دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔ خیال رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وکلاء پیپلز لائر فورم کے میاں حنیف طاہر نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں اپیل کی گئی تھی کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کے خلاف کارروائی کی جائے، کیونکہ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ بھٹو کے خلاف مقدمہ کی سماعت کرنے والی بنچ پر بھٹو کو سزا دینے کے لیے خاصا دباؤ تھا اور بھٹو کو شہادتوں کی دباؤ پر سزائے موت سے کم کی سزا دی جا سکتی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ نے اس درخواست کو ابتدائی سماعت پر ہی مسترد کر دیا تھا۔پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی عام آدمی کے ذہن میں بھی کھلبلی پیدا کر چکی ہے کہ اگر ریمنڈ کے استثنیٰ کا معاملہ عدالت عالیہ میں دائر درخواستوں میں اٹھایا ہی نہیں گیا تھا تو وفاقی حکومت کی جانب سے یہ جواب کس کیس میں عدالت عالیہ کے روبرو داخل کیا گیا کہ ریمنڈ کا پاسپورٹ ضرور ڈپلومیٹک ہے مگر امریکہ نے اس پاسپورٹ کی بنیاد پر اس کا سفارتی استثنیٰ طلب نہیں کیا تھا۔ اس جواب کی روشنی میں ہی تو عدالت عالیہ نے ریمنڈ کے خلاف درخواست نمٹائی تھیں اور درخواستیں نمٹائے جانے کی دیر تھی، ادھر عدالتی فیصلہ آیا اور ادھر پلک جھپکتے ہی ریمنڈ کا نام ای سی ایل سے خارج ہو گیا جب کہ شریعت کا تقاضہ ہے کہ قتل کے کسی کیس کا اس قانون کے تحت فیصلہ کرنا مقصود ہو تو قاتل اور مقتول دونوں لوگ عدالت کے روبرو پیش ہوتے ہیں۔ قاتل کی جانب سے خون بہا کی ادائیگی کے عوض مقتول پارٹی سے راضی نامہ کی درخواست کی جاتی ہے اور متعلقہ ٹرائل کورٹ اس پر مقتول پارٹی کو سوچنے کا آزادانہ موقع فراہم کرتی ہے پھر عدالت کے روبرو مقتول پارٹی سے اس کے وکلاء کی موجودگی میں پوچھا جاتا ہے کہ اس نے کسی دباؤ یا خوف کے تحت تو خون بہا کے عوض ملزم کو معاف کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ پاکستان کے عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ کے روبرو ریمنڈ کے کیس میں اس حوالے سے کیا ہوا؟ کیا پاکستان میں چلنے والی یہ چہ میگوئیاں بے معنی ہیں کہ مقتول پارٹی کے وکیل کو عملاً محبوس کر کے اس کی کمرۂ عدالت تک رسائی ہی نا ممکن بنا دی گئی اور نہ کوئی ایسی شہادت اب تک سامنے آئی ہے کہ مقتولین کے ورثاء کے ساتھ ملزم کا عدالت کے روبرو راضی نامہ ہوا ہے اگر ان سارے معاملات میں عدالتی عمل دخل نہیں ہے تو کیا اس لاقانونیت اور قطعی ماورائے عدالتی اقدامات کا عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کو فوری نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا؟
ذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ سے 20 کلومیٹر دور بھٹو کے آبائی قبرستان گڑھی خدا بخش بھٹو میں دفن ہیں جسے لوگوں نے اب شہیدوں کا قبرستان قرار دے دیا ہے اور جہاں پنجاب سے آئے ہوئے ایک بزرگ جیالے کے بقول پاکستان کے رکھوالے دفن ہیں۔ 30 سال پہلے جب راولپنڈی سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں بھٹو کی میت کو گڑھی خدا بخش لائی گئی تھی تو ان کی نماز جنازہ میں درجن مقامی بھر لوگوں کو ہی شرکت کی اجازت دی گئی تھی مگر ذوالفقار علی بھٹو کے عقیدت مند برسوں بعد بھی ان کے مزار پر پہنچتے رہے اور ان کے قاتلوں کو سزا دینے والے مطالبات پر مشتمل نعرے لگاتے رہے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے جب انتظامات کیے جا رہے تھے تو اس رات ان کے قریبی دوست اور وکیل عبدالحفیظ لاکھو اس امید سے اسلام آباد پہنچے تھے کہ سپریم کورٹ دوبارہ نظر ثانی کی درخواست کی شنوائی کرے گی مگر عدالت پہنچنے سے پہلے ہی انہیں بھٹو کو پھانسی دینے کی اطلاع مل گئی۔ حفیظ لاکھو کے مطابق یحییٰ بختیار نے نظر ثانی کی دوسری درخواست تیار کر کے ان کے حوالے کر دی تھی اور کہا تھا کہ جیسے ہی سگنل ملے گا، داخل کر دیں گے۔ 2 اپریل کو بے نظیر بھٹو نے نظر بندی سے ایک پیغام بھیجا کہ بیگم بھٹو کو اہلکار یہ کہہ کر ساتھ لے گئے ہیں کہ یہ آخری ملاقات ہے، اس لیے یہی وقت ہے کہ دوبارہ نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی جائے۔ دراب پٹیل کے گھر گئے اور چپڑاسی کو بتایا کہ درخواست دائر کرنی ہے۔ ان سے کہا گیا کہ صبح عدالت میں میں اور دو عدالت جانے کی تیاریاں ہی کر رہے تھے کہ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ اگر عدالت نے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں کسی دباؤ میں آ کر فیصلہ کیا ہے اور اسے تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے تو کیا شاہ محمود قریشی نے جو کچھ کہا ہے اسے بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا؟ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے موجودہ حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں روڑہ سمجھے جانے کی وجہ سے ہی وزارت خارجہ کے منصب سے ہٹایا گیا۔ کیاذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی کے مقدمے کو دوبارہ کھولنے کی کوشش اسی لیے کی جا رہی ہے تا کہ لوگوں کا ذہن بانٹا جا سکے۔ بات اگر یہی ہے تو امریکی نوازی میں پاکستان کی عدالت کا وقار داؤ پر لگانے میں موجودہ حکومت برابر کی شریک کہی جائے گی۔