بینظیر کے قتل کا راز، سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے سفارشات ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں
پیپلز پارٹی کی آنجہانی قائد بینظیر بھٹو کی 62 ویں برسی کے موقع پر ان کے شوہر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ان کے قتل کے متعلق بیان جاری کیا اور کہا: “ہم ایف آئی آر ختم نہیں کروائیں گے، چاہے آپ اس کے لیے ہم پر کتنا ہی زور ڈالیں، اور کتنی ہی کوشش کریں۔”
بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے اقوامِ متحدہ کے کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو منوز، جن کا تعلق چلی سے تھا، نے کہا تھا: “شاید کوئی بھی حکومت بینظیر قتل کیس کی الجھی ہوئی پہیلیوں میں سے سچ ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب نہیں ہوگی، یا پھر ایسا کرنا نہیں چاہے گی۔”
چلی کے سابق سفارتکار کی یادداشتیں میں نے ان کی کتاب Getting Away With Murder میں بہت اداسی کے ساتھ پڑھیں، کیونکہ میری زیرِ سرپرستی وفاقی ادارہ برائے تحقیقات (ایف آئی اے) کو 6 اگست 2009 کو تحقیقات پنجاب پولیس سے اپنے ہاتھ میں لینے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ اسپیشل انویسٹیگیشن گروپ کو مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلیجینس ایجنسیوں پر مشتمل ایک مشترکہ ٹیم بنانے کا ٹاسک دیا گیا تھا تاکہ مزید تحقیقات اور مشکوک افراد سے تفتیش کی جا سکے۔
مجھے 18 اکتوبر 2007 کی وہ رات اچھی طرح یاد ہے جب میں بلوچستان پولیس کا آئی جی تھا، اور ٹی وی کے سامنے بیٹھا محترمہ بینظیر بھٹو کو 9 سالہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹنے پر کراچی میں ایک عظیم الشان جلوس کی قیادت کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ بم دھماکوں نے اس رات ان کے قافلے کو نشانہ بنایا جس میں 149 لوگوں کی جانیں گئیں، اور 402 لوگ زخمی ہوئے۔
بینظیر صاحبہ اس قاتلانہ حملے میں بال بال بچیں، اور اپنی مدعیت میں ایک ایف آئی آر درج کروائی۔ پولیس نے وہ مقدمہ درج نہیں کیا جس کی درخواست انہوں نے 21 اکتوبر 2007 کو دی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ: “مجھے حکومت نے اطلاع دی تھی کہ کچھ عسکریت پسند گروہ مجھ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اطلاع موصول ہونے کے بعد میں نے 16 اکتوبر 2007 کو صدرِ پاکستان کو ایک خط لکھا تھا جس میں میں نے انہیں اپنی سکیورٹی کے حوالے سے خدشات، اور ان قوتوں اور لوگوں کے بارے میں آگاہ کیا تھا جن پر مجھے شک تھا کہ وہ مجھے جانی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔”
تحقیقات 27 دسمبر 2007 تک سرد خانے کا شکار رہیں، یہاں تک کہ انہیں قتل کر دیا گیا۔ مقدمہء کارساز 17 اکتوبر 2008 کو ایک بار پھر درج کیا گیا جب جنرل مشرف نے اسی سال اگست میں صدارت سے استعفیٰ دیا، اور زرداری صدر بنے۔
اس دوران اقوامِ متحدہ کے مشن نے جولائی 2009 میں باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کیا، اور وفاقی حکومت نے 6 اگست 2009 کو ایف آئی اے کو مزید تحقیقات کی ذمہ داری سونپی۔ تحقیقات کا خفیہ نام پریشن ٹروجن ہارسم رکھ کر کیس کی تحقیقاتی ٹیم کو 18 اکتوبر کے کارساز حملے سے پہلے، 19 اکتوبر سے 27 دسمبر کے درمیان، اور 27 دسمبر کے بعد کے تمام حالات و واقعات کے عینی، دستاویزی، فارینسک، اور قرائنی ثبوت و شواہد اکٹھے کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔
وہ تمام لوگ جو بینظیر بھٹو کے ساتھ گاڑی میں سفر کر رہے تھے، ان کے بیانات ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ان میں ڈرائیور جاوید، ایس ایس پی سکیورٹی امتیاز حسین، مخدوم امین فہیم، ناہید خان، صفدر عباسی، اور ملازم رزاق شامل تھے۔ سینیٹر صفدر عباسی اور ان کی اہلیہ ناہید خان نے کھلے عام دعویٰ کیا تھا کہ “اسنائپر کی گولی اور روایتی انٹیلیجینس آپریشن” کے ذریعے ان کی قائد کو قتل کیا گیا تھا۔ پی پی پی کی ترجمان شیری رحمان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے۔ ان بیانات اور خالد شہنشاہ کے مشکوک رویے کی گہری جانچ کرنے کی ضرورت تھی۔ خالد شہنشاہ ایک سکیورٹی گارڈ تھے جنہیں ٹی وی فوٹیج میں بینظیر کے قتل سے کچھ منٹ قبل ان کے اسٹیج پر کھڑے ہو کر مشکوک اشارے کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔
ہم نے تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک سے مدد مانگی، جو کہ بینظیر بھٹو کے چیف سکیورٹی آفیسر تھے۔ میں نے انہیں 12 اگست 2009 کو ان کے بااعتماد اسٹاف اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے ذریعے ایک خط ارسال کیا، اور ان سے مندرجہ ذیل چیزیں طلب کیں:
1: بینظیر بھٹو کی جانب سے 16 اکتوبر 2007 کو جنرل مشرف کو لکھے گئے خط کی نقل، جس میں تین مشتبہ افراد کے نام تھے۔
2: بینظیر بھٹو کی جانب سے مارک سیگل اور دیگر افراد کو لکھی گئی ای میلز کی نقل، جس میں انہوں نے جنرل مشرف کی جانب سے لاحق خطرے کا اظہار کیا تھا۔
3: بینظیر بھٹو کی وصیت کی نقل۔
4: بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان طے پانے والے حتمی معاہدے کی نقل۔
5: سکیورٹی سے متعلق معاملات پر بینظیر بھٹو کے چیف سکیورٹی آفیسر رحمان ملک اور حکومتِ پاکستان اور حکومتِ سندھ کے مابین ہونے والی خط و کتابت کی نقول۔
مجھے میری اس درخواست کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
اس دوران 5 گرفتار شدہ ملزمان، اعتزاز شاہ، شیر زمان، حسنین گل، محمد رفاقت، اور رشید احمد سے تفتیش، اور دیگر اہم سراغوں کی مدد سے ہم نے مالاکنڈ کے رہائشی عباد الرحمان کی گرفتاری کا فیصلہ کیا، جس کے متعلق ہمیں یقین تھا کہ بینظیر کے قتل میں اس کا مرکزی کردار ہے۔ لیکن یہ مرکزی کردار اطلاعات کے مطابق مئی 2010 میں خیبر ایجنسی میں ہونے والے پہلے ڈرون حملے یا ایک پاکستانی طیارے کے بمباری کے نتیجے میں مارا گیا تھا۔
ایک اور مشکوک شخص القاعدہ نمبر تین اور مالیاتی اور آپریشنل سربراہ مصطفیٰ ابو یزید عرف شیخ سعید المصری تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے بینظیر کے قتل کی ذمہ داری یہ کہہ کر قبول کی تھی کہ “امریکا کے سب سے قیمتی اثاثے اور مجاہدین کو شکست دینے کے ارادے رکھنے والی شخصیت کو قتل کر دیا گیا ہے۔” اطلاعات کے مطابق وہ شمالی وزیرستان میں 22 مئی 2010 کو سی آئی اے کے ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔
اسی طرح اہم مشکوک شخص اور گواہ خالد شہنشاہ، جسے پارٹی قیادت کے ایک بااعتماد شخص نے بھرتی کیا تھا، کو بینظیر کے قتل کے کچھ ہی ماہ بعد کراچی میں مار دیا گیا۔
28 اکتوبر 2009 کو وزارتِ داخلہ کی موجودگی میں ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کا ایک اہم اجلاس ہوا۔ میری تجویز واضح تھی، کہ تمام شواہد اور سراغ اقوامِ متحدہ کی ٹیم کے سامنے رکھ دیے جائیں۔ یوں تو اقوامِ متحدہ کا کمیشن متعلقہ شراکت داروں، بالخصوص پنجاب پولیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم، کے رویے سے نالاں تھا، لیکن اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ایف آئی اے کی قائم کردہ دوسری مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے “اپنی تحقیقات میں بھرپور سرگرمی دکھائی ہے۔”
وفاقی وزیرِ داخلہ کی رہائش گاہ پر 25 نومبر 2009 کو ہوئی ایک اور اہم میٹنگ میں ایف آئی کے تفتیش کاروں نے تحقیقات میں پیشرفت کا جائزہ لیا، اور متعلقہ ایجنسیوں سے مرکزی مشکوک شخص عبادالرحمان کی خیبر ایجنسی سے گرفتاری کے بارے میں استفسار کیا۔ انہیں مزید ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کا دورہ کرنے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ افسران کو اہم ذرائع سے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اور امریکا بھی بھیجا گیا، تاکہ اس سازش پر مزید روشنی ڈالی جا سکے۔
تفتیش کاروں کے لیے واضح راستہ متعین کرنے کے چند دن بعد ہی میرا ایف آئی اے سے تبادلہ کر دیا گیا۔
کیس اب بھی چل رہا ہے اور میں کوئی حتمی رائے دینے سے گریز کروں گا۔ اقوامِ متحدہ کے کمیشن نے مئی 2010 میں اپنی رپورٹ جمع کروائی، اور ان کے نتائج اور سفارشات پر ایک پروفیشنل کی حیثیت سے میں نے وزیرِ اعظم کو ایک خفیہ خط میں تبصرہ کیا۔ سیاسی اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے ان سفارشات کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا۔ لیکن امید ہے کہ آخر ایک دن سچ ضرور سامنے آئے گا۔
طارق کھوسہ