شریف اور زرداری خاندان کی 100 بلین ڈالر کی دولت سوئس بنکوں میں ہے جو انہوں نے’’ خوف ‘‘کے باعث فرضی کمپنیوں منتقل کوکر دی، اصل کام اس دولت کو واپس لانا ہے جو شائد ہی ہو سکے گا
ایم ارشد
یہ اطلاع بڑی خوش آئند ہے کہ سوئس بینکوں میں موجودپاکستانیوں کی دولت کاسراغ لگانے کے معاہدے کیلئے فیڈرل بورڈآف ریونیو کے افسران کے سوئس ٹیکس اتھارٹیز کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں ۔ یہ مذاکرات سو ئٹرز لینڈ میں ہوئے۔ فیڈرل بورڈآف ریونیوکی ٹیم نے سوئس ٹیکس حکام کے ساتھ دہرے ٹیکسوں سے بچاؤ کے معاہدے میں ترامیم بارے مذاکرات کئے اور معاہدے میں ترامیم کے تحت ایسی شقیں شامل کرنے پر بات چیت کی جس کے تحت پاکستانی ٹیکس حکام سوئٹرز لینڈ کے بینکوں میں موجود پاکستانیوں کی دولت کے بارے میں معلومات حاصل کرسکے گی اورسوئس ٹیکس اتھارٹیز پاکستان میں موجود سوئس باشندوں کے بینک اکاؤنٹس کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرسکے گی۔
اب اس ٹیم کو بھیجنے کا فیصہ کرنے والوں کو کون یہ سادہ سی بات بتائے وہ کون سا سوئس باشندہ ہو گا جو پاکستان کے بینکوں میں اپنا پیسہ رکھے گا۔
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ پاکستان وہ دولت واپس لا سکے گا جو سیاست دانوں نے پاکستان عوام سے لوٹ مار کے ذریعے سو ئٹرز لینڈ کے بنکوں میں منتقل کی ؟ یقینی طور پر ایسا کبھی نہیں ہو سکے گا ۔اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ ایک طرف بہت بڑی کامیابی ہو گی ۔
لیکن ایسا ہونا ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ یہ دولت باہر بھیجنے والے اتنے بے وقوف نہیں کہ اتنی آسانی سے کوئی انہیں واپس لے آئے ۔جیسے آسف علی زرداری اور نواز شریف کی دولت کون مائی کا لال لا سکے گا؟
آخر یہ معاملہ ہے کیا؟
’’ فیکٹ ‘‘ نے اس بارے میں تفصیلات اکٹھی کیں تو معلوم ہوا کہ تنظیم برائے اقتصادی تعاون وترقی کے ممبر ہونے کے ناطے سوئٹزرلینڈ نے ممبرممالک کیساتھ سوئس بینکوں میں فرضی اوربے نام اکاؤنٹس میں پڑی دولت بارے معلومات شیئر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اوای سی ڈی کی سفارش پرسوئٹزرلینڈنے( Return act Asset ) متعارف کروایاجس کے تحت جن ممالک کے سوئٹزرلینڈ کے ساتھ دوہرے ٹیکسوں سے بچاؤ کے معاہدے ہیں اور ان معاہدوں میں معلومات کے تبادلے کی کلاز شامل ہیں،انہیں متعلقہ ممالک کے باشندوں کے سوئس بینکوں کے اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات کی فراہمی کولازمی قراردیا گیا ہے اوراسی کے تحت برطانیہ سمیت دیگرممالک سوئس بینکوں سے معلومات حاصل کررہے ہیں جبکہ بھارت بھی یہی کو ششیں کررہاہے۔
بھارت کو دیکھ کر یہ خیال پاکستان کو بھی آیا اور پاکستان نے بھی سوئٹزرلینڈکے ساتھ دہرے ٹیکسوں سے بچاؤ کے معاہدے میں ترمیم کافیصلہ کیا جس کے تحت سوئٹزرلینڈ اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے دوہرے ٹیکسوں سے بچاؤ کے معاہدے (ٹریٹی)میں ترمیم کرکے دونوں ممالک کے ٹیکس دہندگان اور ان کے بینک اکاؤنٹس بارے معلومات کے تبادلے کے حوالے سے ایک شق شامل کی گئی۔ اس کے لئے پاکستان کی طرف سے سوئس حکام کو باقاعدہ طور پر لیٹر لکھا گیا جس کے بعد سوئس حکام نے مذاکرات کے لئے حامی بھر لی۔
اب یہ ساری بات تو لاجیکل تھی کہ سوئس حکام کے ساتھ معاہدے کے تحت پاکستان کو یہ کرنا ہی تھاکیونکہ بھارت بھی یہی کچھ کر رہا ہے اور پھر جب بے نام دولت بنک اکاؤنٹس میں پڑی ہو تو کیوں کسی کی رال نہیں ٹپکے گی۔
اس حوالے سے بعض اہم ذرائع نے ’’ فیکٹ ‘‘ کو بتایا کہ سوئس حکام کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ بہت پہلے ہوا تھا اور اس کا مقصد سوئس اکاؤنٹس سے سابق صدر آصف علی زرداری کی دولت واپس لانا تھا۔یہ کام ایف بی آر نے بہت پہلے شروع کیا تھا لیکن نواز لیگ نے آتے ہی ایف بی آر کے حکام کو اس کام سے روک دیا ۔
اسلام آباد میں باخبر حلقے اس وقت بہت پریشان ہوئے جب انہیں یہ خبر ملی کہ آصف زرداری کے سوئس اکاؤ نٹس خالی ہوچکے ہیں؟ اس دوران امریکی اخبار ’’ نیو یارک ٹائمز ‘‘ نے بھی یہ سٹوری شائع کر دی کہ آصف علی زرداری کے سوئس اکاؤنٹس میں اب کچھ نہیں ہے اور وہ خالی ہو چکے ہیں ۔سو ئس اکاؤنٹس سے یہ رقم نکلوائی جا چکی ہے اور کہاں گئی اور کس نے نکلوائی؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔
اس اطلاع کے بعد ایف بی آر کے اُن حلقوں کو خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جو پاکستان سے لوٹی کھسوٹی گئی یہ رقم پاکستان لانے کی کوشش کر رہے تھے۔نواز لیگ کے اس اقدام سوئس اکاؤنٹ کی دولت پاکستان میں لانے کی کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ اب تک اس حوالے سے سوئس حکام سے جو بات چیت کی گئی تھی، اِسے کسی نہ کسی طرف لے جانا تھا۔
پاکستان اب اس بات چیت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا ، چنانچہ قانون کا سہارا لیتے ہوئے، سوئس حکام کے ساتھ مذاکرات اور سوئس حکومت کے ساتھ معاہدوں کے باعث اس ساری معاملے کو اس طرح ختم کرنے کی پلاننگ کی گئی کہ پاکستانی ٹیم سوئٹزر لینڈکا دورہ کرے اور معاہدے کے تحت بے نام اکاؤنٹس میں پاکستانیوں کی رقم بارے سوئس حکام سے بات چیت کرے۔
ا ب تک یہ بات شائد متعلقہ حکام کے علم میں آ چکی ہو گی کہ جس دولت کو واپس لانے کی وہ کوشش کر رہے ہیں یعنی آصف علی زرداری کے سوئس اکاؤنٹس میں موجودرقم ۔۔۔تو وہ دولت تو آج سے کئی سال پہلے ہی نکلوا لی گئی تھی۔
سابق صدر آصف علی زرداری گذشتہ دنوں برطانیہ میں مقیم تھے، انہوں نے وہاں اپنے قیام کے دوران کچھ مالی امور بھی نمٹائے۔ سوئٹزرلینڈ میں پڑی ان کی دولت پہلے ہی وہاں سے منتقل ہو چکی ہے۔ اب لندن میں سرے محل سمیت ان کے تمام اثاثے فرضی ناموں سے مختلف برطانوی سرمایہ کار کمپنیوں کے حوالے کئے جا چکے ہیں، اس ضمن میں تمام دستاویزی ثبوت بھی غائب ہو چکی ہیں۔ اس دوران واشنگٹن میں مقیم حسین حقانی اور ان کی اہلیہ فرح اصفحانی نے امریکی حکام سے ان کی ملاقاتوں کا اہتمام بھی کرایا جن میں امریکی نائب صدر جو ہائیڈن بھی شامل ہیں۔
باخبر ذرائع نے اس امر کی بھی تصدیق کی کہ برطانیہ میں حکومت پاکستان کی ایک اور اہم شخصیت نے بھی اپنے اثاثے جو کہ لندن اور دبئی میں موجود ہیں ان تمام کو فرضی ناموں سے مختلف کمپنیوں کے حوالے کردیا ہے۔ مغربی سرمایہ کاروں کے مطابق پاکستاب کے انتہائی اہم سیاستدانوں کی دولت جو مغربی بینکوں میں پڑی ہے یہ 60 بلین ڈالر سے لے کر 100 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ یہ دولت زیادہ تر پاکستان کے 2 خاندانوں یعنی شریف خاندان اور زرداری خاندان کی ہے۔ گذشتہ چند سال میں ان خاندانوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور دبئی کے علاوہ برطانیہ، اسپین اور سعودی عرب میں بھی کاروباری امور کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ اب اگر بیرون ملک سیاستدانوں کی دولت حکومت اداروں نے واپس لانے کی کوششیں کی گئیں تو کم از کم بھٹو اور شریف خاندان کی غیر ممالک میں پڑی دولت لانے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ کیونکہ زرداری اور نواز شریف نے چالاکی سے یہ دولت کچھ کمپنیوں کے نام کر کے ان کی پارٹنر شپ حاصل کر لی ہے۔ اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو اور اپنی لوٹ مار کی دولت کو محفوظ کر لیا ہے۔
سوئس بنکوں پاکستانیوں کی یہ دولت واپس لانے کے لئے ایف بی آر کو کو شش کرنی چاہیے۔لیکن ایسا شائد ہی ہو پائے گا کیونکہ پاکستان میں دو جماعتوں کے ہوتے ہوئے اس کا خواب دیکھنا بھی محال ہے۔کیونکہ انہی دونوں جماعتوں کے لیڈران کی پاکستانی عوام سے لوٹی ہوئی دولت باہر پڑی ہے۔