سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پچیس ارب کیسے ڈبوئے؟
پاکستا ن سول ایوی ایشن، ریگولیٹری اتھارٹی اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی مینجمنٹ سسٹم کو کامیاب بنانے کے لیے ڈھائی ارب روپے جھونک چکی ہے ‘محض سسٹم کی تشہیری مہم میں کروڑوں روپے لگائے گئے ، آر پی (انٹرپرائز ریسورس پلاننگ )کی ناکامی کے باوجود من پسند افراد کو نوازنے کے لیے یہ سسٹم متعارف کرایا گیا اور جنرل منیجر کی پوسٹ پر تعینات شخص کو ڈائریکٹر تعینات کردیاگیا ‘ اور اس سلسلے میں سنیارٹی بھی نظر انداز کردی گئی ۔سسٹم کے نفاذ کے لیے کراچی سمیت ملک کے بڑے ہوائی اڈوں میں فرائض انجام دینے والے فضائی میزبانوں سے مذکورہ نظام کی کامیابی کے لیے پانچ سال کے دوران متعدد بار تجاویز بھی طلب کی جاتی رہیں تاہم اس نظام کو کامیاب بنانے کے لیے سول ایوی ایشن انتظامیہ کی جانب سے کوئی خاطر خواہ حکمت عملی بنائی گئی نہ ہی اہداف حاصل کیے جاسکے ۔معلوم ہوا ہے کہ ایس کیو ایم ایس کے نظام کے ذریعے ملک بھر کے ہوائی اڈوں میں کام کرنے والے فضائی میزبانوں کو انٹرنیشنل رول ریگولیشن کے تحت بہترین سروس فرہم کرنا تھا ‘ اس سلسلے میں کراچی سمیت ملک بھر کے ہوائی اڈوں پر ویل ڈیکوریٹڈ اور فرنشڈ رومز‘جدید سافٹ ویئرز کے ساتھ کمپیوٹرز ‘اورمیڈیکل کی سہولت بھی فراہم کی جانی تھی ‘ ہارڈایریاز والے ہوائی اڈوں کے مسافروں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت خدمات فراہم کی جانی تھی جس کے تحت ہوائی اڈوں پرآرام دہ کرسیاں ‘پینے کے صاف پانی کے لیے کولرز اور دیگر سہولیات شامل ہیں۔ اس سلسلے میں انتظامیہ کی جانب سے تجاویز بکس بھی لگائے گئے اورخوب تشہیر بھی کی گئی تھی تاہم ورکرز کی جانب سے بھیجی جانے والی تجاویز پر عمل نہیں کیا گیا ‘ایس کیو ایم ایس سسٹم کو رائج کرنے کے لیے تو اقدامات نہیں کیے گئے تاہم اس سسٹم کو چلانے والے افسران کو آؤٹ آف ٹرن پروموشن دیا گیا ‘انتظامیہ نے ایس کیوایم ایس نظام کو کامیاب دکھانے کے لیے کراچی میں ٹرمینل ون پر ایک ا?ڈیٹوریم بنوایا جس میں ڈھائی سال کے دوران صرف تین گھنٹے کی تین نشستیں (سیمینار)ہوئیں جس کے بعد سے وہ اب تک بند پڑا ہے ‘افسران کو لگژ ری آفسز کے نام پر آٹھ کمرے بنا کر دیے گئے‘ اور اسٹاف کو غیر قانونی طور پر اسی ہزار روپے لاگت کے لیپ ٹاپس بھی بانٹے گئے ۔اہم ذرائع نے انکشاف کیا کہ ٹیکنیکل سائڈ سے تعلق رکھنے والے جونیئر افسر سمیر سعید کو نوازتے ہوئے ایکٹنگ ڈائریکٹر ایس کیو ایم ایس کا چارج دیا گیا جس کی وجہ سے میرٹ پر آنے والے افسران میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے ۔ذ رائع نے بتایا کہ ڈائریکٹر جنرل سی اے اے خالد چوہدری نے سمیر سعید کو نوازنے کے لیے ایچ آر کے سینئر ترین افسران کے دیگر محکموں میں تبادلے کردیے جن میں سابق جی ایم ایچ آر ظفر احمد ‘ ایکٹنگ جی ایم ملک مظہر ‘راجا لطیف اور ان کے ساتھ ایکٹنگ چیف ایچ آر ثمر رفیق جوکہ سنیارٹی میں سمیر سعید سے اوپر تھے۔ نظر انداز کردیے گئے ‘ اسی طرح ظفر احمد کو پلاننگ اینڈ ڈیزائننگ کا جی ایم بنادیا گیا اور ثمر رفیق کو ایچ آر سے ہٹاکر جی ایم کارگو بنادیا گیا ہے جس کا ان کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہے ۔ملک مظہر ایکٹنگ جی ایم تھے انہیں او ایس ڈی بناکر بٹھا دیا گیا ہے ‘ملک مظہر کے بارے میں معلوم ہوا ہے سمیر سعید کو چارج دینے کے لیے ان کا تبادلہ کسی اور شہر میں کردیا گیا تھا جس پر انہوں نے انتظامیہ کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا جس پر فیصلہ آنے پر انہیں او ایس ڈی بناکر ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں ۔ذرائع نے بتایا کہ ایس کیو ایم ایس کے ایکٹنگ ڈائریکٹر سمیرسعید نے ادارے میں بہتری لانے کی آڑ میں وہ تمام تقرریاں روک دیں جوحال ہی میں ریگولائز ہونے والے سپورٹنگ اسٹاف کو ٹریڈ کے مطابق دی جانی تھیں اور مذکورہ میرٹ بنانے کے حوالے سے سابق جی ایم ایچ آر ثمر رفیق نے اپنا کام مکمل بھی کرلیا تھا‘ٹریڈ تقرریوں کے سلسلے میں اکاوئنٹس اور ایچ آر سمیت پچاس سے زیادہ ٹریڈز پر کیے جانے والے تمام انٹرویوز پر لاکھوں روپے کے اخراجات بھی آئے تھے جو سمیر سعید کے حکم دیے جانے پر ضائع ہوگئے۔ذرائع نے بتایا کہ سمیر سعید نے سینئر اسٹاف کی ڈی پی سی بھی روک دی جس میں کمیونیکیشن ‘الیکٹرونک ‘فائر ‘ مکینیکل ‘الیکٹریکل ‘ ایم ٹی ڈی اور ایس وی ڈی اور ایچ آر اسسٹنٹس ‘اکاوئنٹس سمیت میجر گروپ پانچ اورچھکے لوگ شامل تھے اورچودہ سال گزرجانے کے باوجود ترقی نہیں پاسکے ہیں ۔ذرائع نے بتایا کہ ایس کیو ایم ایس کے ایکٹنگ ڈائریکٹر کی حیثیت میں سمیر سعید نے ڈی جی سی اے اے کو اس بات پر راضی کیا کہ ماضی میں کیے گئے تمام انٹرویوز اور تقرریوں کو کالعدم کردیا جائے اور ایک بار پھر نئے سرے سے اسکروٹنی کی جائے اور اس کے بعد ایک بار پھر ملک بھر کے ہوائی اڈوں میں کام کرنے والے اسٹاف کے انٹرویوز کیے جائیں اور پھر میرٹ کے مطابق تقرر کیا جائے ‘سی اے اے کے بعض حلقوں نے اس پروسس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پروسس میں شامل ہوکر سمیر سعید ڈائریکٹر کا عہدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ دوسری جانب سوا دوارب روپے سے خریدا جانے والا سافٹ وئر ( ای آر پی ) کا تین برس بعد بھی استعما ل شروع نہیں کیا جاسکا۔ آج تک اکاوئنٹس سمیت دیگر انتظامی و ریگولیٹری امور پرانے طریقہ کار پر چلائے جارہے ہیں ‘ڈی جی سی اے اے خالد چوہدری کی جانب سے تمام تر قوانین و ضوابط یکسر نظر انداز کرتے ہوئے جنوری 2012ء میں پاک فضائیہ کے ریٹائرڈ افسر ریاض قدیر کی ساڑھے سات لاکھ روپے ماہوار پر بطور انفارمیشن ٹیکنالوجی کنسلٹنٹ بھرتی بھی سود مند ثابت نہی ہوسکی ‘ذرائع نے بتایا کہ ریاض قدیر ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال ادارے کے مفاد میں کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے ‘ریاض قدیر اب تک سی اے اے سے تقریباًنوے لاکھ روپے وصول کرچکے ہیں ان کی معاونت کے لیے غیر قانونی طور پر بھرتی کیے جانے والے چودہ آئی ٹی ایگزیکٹو پچاس ہزار روپے سے اسی ہزار روپے ماہوار الگ وصول کررہے ہیں اس طرح سی اے اے ایک سال میں آئی ٹی کنسلٹنٹ اور ان کے معاونین پر دوکروڑ روپے خرچ کرچکی ہے اور ان کی ایک برس میں کارکردگی صفر رہی ہے۔ذرائع نے انکشاف کیا کہ ریاض قدیر کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے متعلق 5مختلف ٹاسک دیے گئے تھے جس میں سب سے اہم ٹاسک ای آر پی کو ادارے میں مکمل طور پر نافذ کرنا تھا ‘ریاض قدیر نے اربوں روپے لاگت سے خریدے گئے سافٹ ویئر کو نافذ کرنے کے بجائے اپنے تیار کردہ سافٹ ویئر اور موڈی فکیشن نافذ کرنے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی پر اپنا تیا ر کردہ سافٹ ویئر مسلط کرنے کے لیے سرگرم ہیں تاکہ اس مد میں انہیں سالانہ لاکھوں روپے آمدنی ہوتی رہے ‘اسی لیے ایک برس کے دوران نہ تو ائر پورٹس سے متعلق کمپیوٹرائزڈ سسٹم کو اپ گریڈ کیا گیا نہ ہی ای آر پی پر اکاوئنٹس و دیگر ڈائریکٹوریٹس کو منتقل کرنے میں کوئی کردار ادا کیا گیا‘ اکتیس دسمبر 2012ء کو ختم ہونے والے سال کی بیلنس شیٹ بھی ایکسل شیٹس پر بنائی گئی جس میں کروڑوں کے اخراجات کی انٹری ہونے سے رہ گئی اس صورتحال کے سبب اس سال بھی سی اے اے کو کئی آڈٹ اعتراضات کا سامنا ہوسکتا ہے ‘ذرائع نے بتایا کہ چند ہفتے قبل سی اے اے سے تبادلہ ہونے والے چیف فنانشل آفیسر فضل اللہ پیچوہو کی جانب سے ظاہر کی گئی اسی کروڑ روپے کی غیر قانونی ایڈجسٹمنٹ آڈیٹرز کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے ‘یاد رہے کہ ای آر پی سسٹم مرکزی سافٹ ویئر ہے جس میں سی اے اے کے تمام لینڈ ریکارڈ ‘حسابات خاص طور پر بلنگ کو منسلک کیا جاتا تھا تاکہ کرپشن کا عنصر کم کیا جاسکے ‘سی اے اے کی آمدنی کا بڑا حصہ ائر نیوی گیشن چارجز سے وصول ہوتا ہے جس میں ائر پورٹس پر طیاروں کی آمدورفت ‘لینڈنگ ہاوئسنگ چارجز اور فضائی حدود سے گزرنے والی ٹرانزٹ پروازوں سے ملنے والی آمدنی سرفہرست ہے ‘جدید ترین سسٹم ہونے کے باوجود سی اے اے میں بلنگ آج بھی مینول طریقہ کار کے تحت ہوتی ہے ‘ماضی میں بلنگ کے عمل میں کرپشن کی متعدد شکایات منظر عام پر آئیں جن کی انکوائری بھی ہوئی لیکن کوئی کرپشن سامنے نہ آسکی ۔ذرائع نے بتایاکہ نان شیڈول پروازوں کی بلنگ سی اے اے میں ہمیشہ مشکوک رہی ہے اور ادارے کے پاس ایسا کوئی میکینزم نہیں جس کی بنا پر ریکارڈ کی اسکروٹنی کی جاسکے ‘آئی آر پی کے ذریعے شفاف بلنگ ممکن ہے‘ سی اے اے کے انتظامی حلقوں میں بعض بااثر افسران سسٹم کو ذاتی مفادات کے لیے ای آر پی پر منتقل نہیں ہونے دیتے۔
رپورٹ:سید نبیل اختر