القاعدہ پاک بحریہ میں سرایت کر گئی
القاعدہ نے ساتھیوں کی رہائی کیلئے بحریہ کے افسران کو دھمکیاں دیں
انکار پر بحریہ کی بسوں اور مہران نیول بیس پر حملہ کیا،
پاک بحریہ میں دوسری پکڑ دھکڑ میں گرفتار کیے گئے دیگر لوگوں کا تعلق پنجاب اور کراچی سے ہے،سلیم شہزاد کی آخری تحریر جوا س کی موت کا سبب بن گئی
سید سلیم شہزاد
القاعدہ نے بائیس مئی کو نہایت دیدہ دلیری سے کراچی میں پاکستانی بحریہ کے فضائی اڈے مہران کو اپنا حملے کا نشانہ بنایا۔یہ حملہ پاکستانی بحریہ اورالقاعدہ کے نمائندوں کے مابین ہونے والی اس بات چیت کی ناکامی کے بعد کیا گیا جو پاک بحریہ کے گرفتار شدہ ان عہدیداروں کی رہائی کے بارے میں ہورہی تھی جن کو اس شبہ پر گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ القاعدہ سے ربط ضبط رکھتے ہیں۔
پاک بحریہ کے فضائی اڈے مہران بیس پر القاعدہ نے آخر کیوں حملہ کیا۔بحریہ کے اڈے سے حملہ آوروں کو خالی کرانے کے لیے سکیوریٹی فورسز کو کوئی پندرہ گھنٹوں تک لڑائی کرنا پڑی۔حالانکہ پورے طور پر مسلح حملہ آوروں کی تعداد مٹھی بھر تھی۔سرکاری طور پر حملہ آوروں کی تعداد چھ بتائی گئی ۔جن میں سے چار تو لڑائی کے دوران مارے گئے اور دو فرار ہو گئے ۔تاہم غیر سرکاری ذرائع کے بموجب حملہ آور جنگجوؤں کی تعداد دس تھی۔ان میں سے چھ حملہ آور بچ کر نکل گئے۔اس لڑائی میں کم از کم دس افراد ہلاک ہوئے اوردو امریکی ساختہ طیارے تباہ ہو گئے ۔یہ طیارے فضائی نگرانی اور دشمن کی آبدوزوں کو تباہ کرنے کے لیے مختص تھے ۔ایک طیارے کی قیمت تین کروڑ ساٹھ لاکھ امریکی ڈالر مالیتتھی۔حملہ آوروں کا جتھا ان طیاروں کو تباہ کرنے کے بعد ہزاروں فوجیوں کے گھیرے کے بیچ سے فرار ہو گیا۔
شواہد سے یہ توثیق ہوگئی کہ حملہ آوروں کے اس جتھے کا تعلق الیاس کشمیری کی 313بریگیڈ سے تھا۔یہ بریگیڈ القاعدہ کی مسلح کاروائیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔گذشتہ مہینے بطور انتباہ القاعدہ نے بحریہ کی بسوں پر کوئی تین حملے کیے تھے۔ان حملوں میں 9لوگ ہلاک ہوئے تھے۔بحریہ کے عہدہ داروں کو یہ انتباہ دینے کے لیے یہ حملے کیے گئے کہ وہ بحریہ کے گرفتار کئے گئے ان عہدہ داروں کو رہا کر دیں جن کو القاعدہ سے ربط ضبط رکھنے کے شبہ پر گرفتار کیا گیا ہے اور ان کی رہائی کے لیے القاعدہ کے مطالبہ کو مان لیا جائے ۔
اس حملے کا ایک ڈھکا چھپا مقصدیہ بھی تھا کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور پاک بحریہ کے اندر القاعدہ سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف داخلی طور پر جو تادیبی کارروائیاں کی گئیں ،ان کا بھی انتقام لیا جائے۔ کراچی پاکستان کی سب سے بڑی اور اہم بندرگاہ ہے اور کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ۔ چند ہفتے پہلے انٹیلی جنس نے یہ سراغ لگایا تھا کہ پاکستانی بحریہ کے اندر القاعدہ کا ایک خفیہ گروہ ہے جو کراچی کے بحری اڈوں میں سرگرم عمل ہے ۔پاک بحریہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ ’’مسلح افواج میں اسلامیائی احساسات عام ہیں۔‘‘ عہدہ دار نے یہ بات نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی کیونکہ وہ میڈیا سے بات چیت کے لیے مجاز نہیں۔اس عہدہ دار نے کہا کہ’’ہمیں کبھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔کیونکہ دنیا بھر میں مسلح افواج ،چاہے وہ امریکی ہوں ،برطانوی یا ہندوستانی ۔وہ سبھی دشمن کے خلاف اپنے فوجیوں کو بھڑکانے کے لیے کسی نہ کسی مذہبی وجدان کا سہارا لیتی ہیں۔پاکستان تو دوقومی نظریہ یعنی یہ کہ ہندو اور مسلمان دو جداگانہ قومیں ہیں ۔اس نظریئے کی بنیاد پر وجود میں آیاتھا۔اس لیے کوئی بھی پاکستان کی مسلح افوا ج کو اسلام یا اسلامی احساسات سے الگ تھلگ نہیں کرسکتا۔‘‘ بحریہ کے اس عہدہ دار نے یہ بھی بتایا کہ ’’ ہم نے کچھ ایسا مشاہدہ کیا ہے کہ کراچی کے مختلف بحری اڈوں میں ایک ناگوار اور تکلیف دہ گروہ بندی ہو رہی ہے ۔ویسے کوئی بھی مسلح افواج کو مذہبی عبادات کی ادائیگی یا اسلام کے مطالعے سے روک نہیں سکتا لیکن ہم نے یہ محسوس کیا کہ ،یہ گروہ بندی مسلح افواج کے نظم وضبط کے خلاف تھی۔اس بناء پر بحریہ کے اندر انٹیلی جنس کا رروائی کا آغاز ہو ا تاکہ بے ضابطہ ہونے والی سرگرمیوں کی روک تھام کی جاسکے۔ ‘‘اس عہدہ دار نے مزید بتایا کہ ’’ بس اس کے بعد سے ہی گڑ بڑ شروع ہو گئی۔ ‘‘
اس سلسلے میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ۔انہیں کراچی میں چیف منسٹر کی رہائش گاہ کے عقب میں واقع نیول انٹیلی جنس کے آفس میں زیر حراست رکھا گیا۔لیکن قبل اس کے کہ ان سے مناسب پوچھ گچھ شروع ہوتی۔بحریہ کے تفتیش کرنے والے انچارج کو جنگجوؤں سے براہ راست دھمکیاں ملنے لگیں اورجنگجوؤں نے صاف طور پر انہیں یہ بتا د یا کہ وہ جانتے ہیں کہ گرفتار کئے گئے لوگوں کو کہاں پر قید رکھا گیا ہے ۔ان کے بعد ان تمام لوگوں کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔لیکن دھمکیاں ملنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔
پاک بحریہ کے جو عہدہ دار اس کیس سے متعلق ہیں وہ یہ باور کرتے ہیں کہ جنگجوؤں کو یہ اندیشہ ہو گیا کہ گرفتار کئے گئے افراد سے پوچھ گچھ ہونے کے نتیجے میں بحریہ کے اندر ان کے مزید وفادار گرفتار کئے جائیں گے اس لیے جنگجوؤں نے یہ واضح کر دیا کہ گرفتار کئے گئے افراد کو رہا نہیں کیا گیا تو پھر بحریہ کی تنصیبات کو حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔یہ بات بالکل عیاں اور صاف واضح ہے کہ جنگجوؤں کو بخوبی اندرونی اطلاعات ملتی جارہی تھیں کہ شبہ میں پکڑے گئے بحریہ کے عہدہ داروں کو کس مقام پر حراست میں رکھا گیا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بحریہ کی صفوں میں القاعدہ کتنے اندر تک سرائت کر گئی ہے۔ایک اعلی سطحی بحریہ کانفرنس میں ایک انٹیلی جنس عہدہ دار نے اس بات پر زور دیا کہ ’’ معاملے سے بہت محتاط انداز میں نمٹا جانا چاہئے ۔ورنہ نتائج وعواقب نہائت تباہ کن اور بھیانک ہو سکتے ہیں‘‘۔ کانفرنس میں موجود ہر فرد نے اس بات سے اتفاق کیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ القاعدہ سے بات چیت کے لیے مواصلاتی ربط پیدا کیا جائے۔
اس مقصد کےٍ لئے ایک سابق اسٹوڈنٹس یونین لیڈ ر عبدالصمد منصوری کو استعمال کیا گیا جو ر اب الیاس کشمیری کے 313بریگیڈ کا حصہ ہے۔ منصوری کا کا اصل سکونتی مقام کراچی ہے لیکن اب وہ شمالی وزیرستان میں سکونت رکھتا ہے ۔ پاک بحریہ کے رابطہ کاروں نے اس سے رابطہ پیدا کیا اور اس طرح القاعدہ سے بات چیت شروع ہوئی ۔القاعدہ نے کسی پوچھ گچھ کے بغیر ان بحری عہدہ داروں کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کیا۔ لیکن ان کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا گیا ۔تاہم بحریہ کی طرف سے گرفتار شدگان کو ان کے خاندان سے بات چیت کا موقع دیا گیا اور ان سے اچھا ساسلوک کیا گیا۔لیکن بحریہ کے عہدہ داران ان لوگوں سے پوچھ گچھ کے لیے نہایت بے چین تھے تا کہ بحریہ کے اندر القاعدہ کے نفوذ اور اس کی طاقت کا صحیح اندیشہ کیا جاسکے۔ اس لیے جنگجوؤں سے یہ کہہ دیا گیا کہ بحریہ کے ان گرفتار عہدے داروں سے پوچھ گچھ جیسے ہی ختم ہو گی ۔ان کوملازمت سے برطرف کر کے رہا کر دیا جائے گا۔القاعدہ نے یہ شرط نہیں مانیں اور اپنی ناراضگی کا اظہار اپریل میں بحریہ کی بسوں پر حملوں کی شکل میں کیا ۔حملوں کے ان واقعات نے ایک سے زائد مرتبہ یہ ثابت کر دیا کہ القاعدہ کا خفیہ جاسوسی نظام پاکستانی بحریہ کے اندر دور دور تک سرایت کر گیا ہے۔اب اندیشہ اور خوف یہ ہے کہ القاعدہ کو خفیہ جاسوسی نظام کو توڑنے اور تہس نہس کردینے اگر اب کچھ نہیں کیا گیا تو پھر نیٹو کے رسدی قافلوں کے لیے بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔نیٹو کے رسدی قافلے کراچی سے افغانستان کے لیے سفر شروع کرتے ہیں ۔اگر ان رسدی قافلوں پر حملے ایک معمول بن گئے تو پھر کراچی بندر گاہ کے لیے بھی جو کھم بہت بڑا بن جائے گا۔اسی لیے بحریہ کے اندر دوسری بار پکڑ دھکڑ کی گئی اور زیادہ لوگ گرفتار کئے گئے جنہیں پکڑ اگیا۔ان کا تعلق مختلف نسلی طبقوں سے ہے ۔ایک نیول کمانڈو کا تعلق جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے سے پایا گیا۔ایسا باور کر لیا گیا کہ اس بحری کمانڈو کو حکیم اللہ محسود سے راست طور پر ہدایات مل رہی تھیں ۔بحریہ میں دوسری پکڑ دھکڑ میں گرفتار کیے گئے دیگر لوگوں کا تعلق پنجاب اور کراچی سے ہے ۔
ایبٹ آباد میں امریکی بحریہ کے مخصوص کمانڈو ز کی کارروائی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد جنگجوؤں کے لیے ایک بڑے اقدام کا وقت موزوں بن گیا تھا۔ایک ہفتے کے اندر بحریہ کے مہرانبیس کے اندر موجود القاعدہ کے لئے ہمدردی رکھنے والوں نے نقشہ جات اور اندر آنے اور باہر جانے کے راستوں کی تصاویر جو دن کے اجالے اور رات میں کھینچی گئی تھیں،طیاروں کے ٹھکانوں کے مقامات کی تصاویر اور تفصیلات کے ساتھ ساتھ یہ معلومات بھی دے دیں کہ سکیورٹی فورسز حملہ آوروں کی مزاحمت اور تنصیبات کو بچانے کے لیے کس مقام پر کس نوعیت کی کارروائی کر سکتی ہیں۔معلومات، تصاویر اور نقشہ جات کی فراہمی کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ جنگجو آسانی کے ساتھ بحری اڈے کی حدود میں سخت سکیورٹی بندوبست کے باوجود گھس آئے ۔ایک جتھے نے بحریہ کے طیاروں کو حملوں کا نشانہ بنایا جب کہ دوسرے جتھے کے دیگر دو جتھوں کو تحفظاتی فائرنگ دیتے ہوئے راہ فرار اختیار کر لی ۔جو لوگ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے وہی لوگ مارے گئے۔
نوٹ:
اس آرٹیکل کا دوسر حصہ جنگجوؤں کی بھرتی اور ان کی تربیت کاری سے متعلق تھا۔لیکن سلیم شہزاد یہ دوسرا حصہ قلمند نہیں کر سکے۔کیونکہ وہ 29مئی کے دن شام پانچ بجے سے اچانک لاپتہ ہوگئے ۔عام شبہ یہ ہے کہ 27مئی کو یہ آرٹیکل شائع ہونے کے بعد کچھ لوگ ان کے تعاقب میں تھے اور وہ انہیں شام پانچ بجے اس وقت دبوچ لینے اور غائب کردینے میں کامیاب ہو گئے جب وہ اسلام آباد میں دنیا نیوز چینل کے کسی پروگرام میں شرکت کے لیے جارہے تھے اور پھر دو دن بعد پنجاب کے علاقہ منڈی بہاولدین سے ان کی لاش ملی جس پر تشدد کے واضح نشانات تھے۔