Published On: Fri, Apr 22nd, 2011

اسلام آباد پولیس جانچ پڑتال کا منصو بہ وفاق، پنجاب تنازعہ کی نظر ہو گیا

Share This
Tags

اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس اس وقت وی وی آئی پی ڈیوٹی کیلئے ہائی رسک بن چکی ہے،
پولیس میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کا پس منظر جہادی یا فرقہ وارانہ ہے

پولیس کمانڈوز کو لاکھوں روپے خرچ کر کے پاک فوج کے ایس ایس جی ایلیٹ کے
ساتھ تربیت دلوائی گئی تھی مگر سب ضائع گئی، دارلحکومت میں سکیورٹی رسک بڑھ گیا

 

ملک کے دارا لحکو مت اور سب سے حساس شہر اسلام آباد کی پولیس میں کالی بھیڑوں کا خطرہ بڑھ گیا۔ وی آئی پی اسکواڈ بھی غیر ذمہ دار اور کسی بھی وقت خطرہ بن جانے والے اہلکاروں سے پاک نہیں۔ صرف روالپنڈی پولیس کے وی وی آئی پی سکیورٹی دستے میں 19 ایلیٹ کمانڈوز ایسے نکلے جو اعتماد کے سرکاری معیار پر پورا نہیں اترتے۔ لہٰذا انہیں وی وی آئی پی ڈیوٹی سے الگ کیا جا چکا ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملہ صرف ایلیٹ کمانڈوز تک ہی محدود نہیں بلکہ روالپنڈی ڈسٹرکٹ پولیس میں بھی ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی پائی گئی ہے جو پولیس ڈیوٹی کیلئے فٹ نہیں ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکام نے پورے ضلع راولپنڈی اور اسلام آباد کی پولیس کی اسکریننگ کا فیصلہ کیا اور اسلام آباد پولیس نے اہلکاروں کی اسکریننگ کیلئے پنجاب پولیس سے تعاون کی درخواست کی تھی مگر وہ پنجاب اور وفاق تنازع کی نذر ہو کر رہ گئی اور منصوبہ ناکام ہو گیا۔
اسلام آباد پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس اس وقت وی وی آئی پی ڈیوٹی کیلئے ہائی رسک بن چکی ہے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد یہ صورت حال اور زیادہ تشویشناک ہو گئی تھی مگر ابھی تک اس سلسلے میں کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔ روالپنڈی پولیس کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ایلیٹ فورس کی فوری ضرورت کے تحت اسکریننگ کے عمل سے گزارا گیا۔ جس میں ان کے نفسیاتی ٹیسٹ بھی کئے گئے، جن میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ان لوگوں کا ذہنی رجحان کیا ہے۔ غصہ کتنا ہے اور برداشت کا کیا عالم ہے۔ اس ٹیسٹ میں 19 کمانڈوز کو ان فٹ پایا گیا۔ یہ کمانڈوز وہ ہیں جن کو لاکھوں روپے خرچ کر کے پاک فوج کے ایس ایس جی ایلیٹ کے ساتھ تربیت دلوائی گئی تھی مگر وہ سب ضائع گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام آباد، روالپنڈی پولیس کی اسکریننگ کی جائے مگر پولیس کے پاس کوئی سائیکالوجسٹ نہیں ہے بلکہ روالپنڈی کے ڈسٹرکٹ اسپتال میں بھی کوئی ماہر نفسیات موجود نہیں۔ اسلام آباد پولیس کے حکام نے سکیورٹی کی اس صورت حال کے پیش نظر اسلام آباد پولیس کی اسکریننگ کا فیصلہ کرتے ہوئے متعلقہ اضلاع میں ان کے بارے میں انکوائری اور طبی جانچ کا فیصلہ کیا مگر یہ سب کچھ پنجاب پولیس کے سبب ناکام رہا۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسکریننگ میں یہ طے کیا گیا تھا کہ متعلقہ پولیس اہلکاروں کے آبائی علاقوں سے امر کی تحقیقات کی جائیں گی کہ ان کا ماضی کیا رہا ہے۔ اسکول میں کیسے تھے۔ کس مسلک اور مذہبی گروہ سے تعلق ہے۔ ان کے خاندان میں یا ملنے جلنے والوں میں کسی نے جہادی تربیت لے رکھی ہے یا کوئی جہادی ذہن کھنے والا بندہ موجود ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد پولیس نے دو ماہ کی محنت کے بعد اپنی تمام پولیس فورس کا بائیو ڈیٹا جمع کر کے متعلقہ پولیس حکام کو بھجوایا۔ ان میں 50 فیصد سے زیادہ پولیس اہلکاروں کا تعلق چونکہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا اس لئے ان سے متعلق پروفارما پنجاب میں اسپیشل برانچ کو بھجوایا گیا۔ لیکن یہ لیٹر مارچ کے آخر میں نہ صرف واپس بھجوا دیا ہے بلکہ ایس ایس پی اسلام آباد کو ایک لیٹر ارسال کیاگیاجس میں درخواست پر عمل درآمد کے بجائے اپنا ایک علیحدہ پروفارما بنا کر بھجوا دیا گیا ہے کہ اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں سے متعلق معلومات پر کر کے حاصل کر لی جائیں اور ان میں سے اگر کسی معاملے میں کوئی شک و شبہہ ہو تو اس کی مزید تفتیش کی جا سکتی ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک ذمہ دار کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے ذمہ داران، پنجاب پولیس کی اس حرکت کو غیر ذمہ داری قرار دے رہے ہیں، جس کے سبب اسلام آباد میں سکیورٹی رسک بڑھ گیا ہے اور اسلام آباد پولیس کے حوالے سے کچھ بھی کہنا ممکن نہیں رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق پنجاب پولیس اور اسلام آباد پولیس ایسے عناصر سے پاک نہیں جو وی آئی پی ڈیوٹی کیلئے ان فٹ اور ناقابل اعتبار ہیں، ان کا نفسیاتی تجزیہ بہت ضروری ہے۔ اس سوال پر کہ یہ بھرتی کے وقت پولیس اہلکاروں کی ذہنی ساخت، نفسیاتی رجحانات اور پس منظر کیوں نہیں جانچا جاتا؟ ذرائع نے کہا کہ بھرتی کے پروسیجر میں نفسیاتی تجزیے اور پس منظر کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ باڈی فٹنس اور مطلوبہ تعلیمی قابلیت کو اصل معیار تصور کیا جاتا ہے۔ نفسیاتی تجزیے کے حوالے سے سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ پنجاب پولیس کے پاس کوئی ماہر نفسیات نہیں ہے اور بھرتی کے وقت امیدوار کے آبائی علاقے سے اس کے چل چلن کی رپورٹ کو بھی سرسری لیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پولیس میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کا پس منظر جہادی یا فرقہ وارانہ ہے۔ لاہور پولیس کے ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد پولیس اپنا بوجھ پنجاب پولیس پر منتقل کرنا چاہتی ہے۔ پنجاب پولیس کی جانب سے اسے ایک راستہ دکھایا گیا ہے کہ وہ اس سیدھے راستے کے ذریعے آسانی کے ساتھ کام نمٹا سکتی ہے لیکن اگر وہ اسے کوئی اور معنی دیتے ہیں تو پنجاب پولیس اس کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Leave a comment