تاریخ کا سب سے بڑاگھپلا،تیل کمپنیاں45ارب کی ٹیکس چوری میں ملوث
اسد ابن حسن
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ پکڑا ہے ، جس میں3 آئل کمپنیوں نے 2 فیصد سیلز ٹیکس چوری کر کے قوی خزانے کو ڈھائی برس میں تقریباً45 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے ، ان کمپنیوں میں پاکستان اسٹیٹ آئل نے تقریباً ساڑھے 30 ارب روپے ، شیل پاکستان نے تقریبا5ارب روپے ، اور بائیکو(BYCO) پیٹرولیم پاکستان نے تقریباً دو ارب کا ٹیکس چوری کیا۔ 13مئی 2011ء کو ڈی جی پوسٹ کلیئرنس آڈٹ ہمایوں خان سکندری نے چیئر مین سی بی آر کوایک خط لکھا ، جس میں اس فراڈ کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔ خط کے مطابق مذکورہ بالا تین آئل کمپنیوں نے یکم جولائی 2008ء سے 31 دسمبر2010ء تک ہائی اسپیڈ ڈیزل درآمد کیا اوراس پر واجب الااد2 فیصد سیلز ٹیکس حکومتی خزانے میں جمع نہیں کرایا۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ تینوں کمپنیوں کو اس بارے میں وضاحت کے لیے کہا گیا تھا ، تاہم انہوں نے جو جواب داخل کیا وہ تسلی بخش نہیں تھا۔ خط میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ٹیکس گھپلا ہے ۔ واضح رہے کہ رواں برس کے ابتدائی 6ماہ میں ٹیکس چوری کا یہ سلسلہ جاری رہا اور خزانے کو مزید تقریباً10 ارب کا نقصان پہنچایا گیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ اگر کوئی مینو فیکچرر اپنی فیکٹری یا انڈسٹریل یونٹ میں استعمال کرنے کے لیے آئل درآمد کرتا ہے تو اس کو دو فیصد سیلز ٹیکس سے استشنٰی حاصل ہے مگر کوئی ادارہ یہی آئل درآمد کر کے اسے براہ راست مارکیٹ میں فروخت کردے تو اسے دو فیصد سیلز ٹیکس لازمی دینا ہوگا۔ واضح رہے کہ موجود حکومت نے اس سال مذکورہ ٹیکس دو فیصد سے بڑھا کر تین فیصد کر دیا ہے ۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ یہ تحقیقات گزشتہ برسوں سے جاری تھی ، مگر ہر بار جب بھی تحقیقات اپنے منطقی انجام تک پہنچنے لگتی تھی تو اوپر کے حکم پر اس کو روک دیا جاتا تھا ، تاہم جب رواں برس موجود ڈی جی ہمایوں سکندری نے چارج سنبھالا تو انہیں اربوں روپے کے اس گھپلے کے بارے میں بتایا گیا جس پر انہوں نے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے ایک ٹیم تشکیل دی ، جس میں ڈائریکٹر نثار احمد، ڈپٹی ڈائریکٹر نعیم اختر، اسٹنٹ ڈائریکٹرغلام حیدر مہیسر اور سینئر آڈیٹر رفیق الزمان خان شامل تھے ، اس ٹیم نے دن رات تحقیقات کر کے اور شواہد جمع کر کے ایک مہینے میں اپنی رپورٹ پیش کر دی ، جس میں یہ ثابت کیا گیا کہ تین آئل کمپنیوں نے تقریباً ڈھائی برس میں ساڑھے 35ارب روپے کی ٹیکس کی چوری کی ۔ ذرائع کے مطابق اس کے بعد بھی ٹیکس چوری کا سلسلہ جاری رہا اور قومی خزانے کو پہنچنے والا نقصان ساڑھے 45 ارب تک جا پہنچا۔ ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ماڈل کسٹم کلکٹر یٹ کراچی، پورٹ قاسم ، ملتان ، فیصل آباد، لاہوراور حیدرآباد کے کلکٹر ز اور ڈائریکٹرز کو اس کی تفصیلات بھجوادی ہیں اور متعلقہ کلکٹر یٹ نے آئل کمپنیوں کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دئیے ہیں ، جس کے بعد ریکوری کا عمل شروع ہونے کا امکان ہے ۔ ایف بی آر نے ٹیکس ریکوری کے لیے متعلقہ حکام کو ہدایت کر دی ہے اور اس سلسلے میں جو تفصیلات ماڈل کسٹم کلکٹریٹ(MCC) کو بھجوائی ہیں ، ان کے مطابق پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی لمیٹڈ نے کلیکریٹ ایم سی سی پری وینٹو کراچی میں 265,025,302,5 روپے کا نقصان پہنچایا ، جہاں رپورٹنگ پرسن کلکٹر تھے۔ ایم سی سی پورٹ قاسم میں 580,547,415,17روپے کا نقصان رپورٹنگ پرسن کلکٹر، ایم سی سی ملتان میں 995,473,792,4 روپے رپورٹنگ پرسن کلکٹر پی سی اے لاہور، ایم سی سی فیصل آباد میں 747,281,845 روپے رپورٹگ پرسن ڈائریکٹر پی سی اے لاہور، ایم سی سیس لاہور میں 336,293,823,1 روپے رپورٹنگ پرٹنگ پرسن پی سی سی اے لاہور، ایم سی سی حیدرآباد میں 672,470,352, روپے رپورٹنگ پرسن کلکٹر تھے۔ پی ایس او کی جانب سے پہنچائے گئے نقصان کا تخمینہ 595,092,531,30 روپے بنتا ہے ۔ شیل پاکستان لمیٹڈنے ایم سی سی پری وینٹو کراچی میں 573,956,087,1 روپے کا نقصان پہنچایا جہاں رپورٹنگ پرسن کلکٹر تھے ، ایم سی سی پورٹ قاسم میں 488,818,485,1روپے رپورٹنگ پرسن کلکٹر ، ایم سی سی ملتان 762,307,576 روپے رپورٹنگ پرسن ڈائریکٹر پی سی اے لاہور، ایم سی سی فیصل آباد 383,850,225 روپے رپورٹنگ پرسن ڈائریکٹر پی سے اے لاہور، ایم سی سی لاہور044,881,399,1 روپے، رپورٹنگ پرسن ڈائریکٹر پی سی اے لاہور، ایم سی سی حیدرآباد 55,046,29,1 روپے کا نقصان پہنچایا جہاں رپورٹنگ پرسن کلکٹر تھے، ایم سی سی پورٹ قاسم 409,639,45 روپے رپورٹنگ پرسن کلیکٹر، ایم سی سی فیصل آباد 201,343,14 روپے رپورٹنگ پرسن ڈائریکٹر پی سی اے لاہور ، میزانیہ 870,028,189 روپے بنتا ہے ۔ ان تینوں کمپنیوں کی جانب سے قومی خزانے کو مجموعی طور پر770,773,542,35 روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ اس سلسلے میں ڈی جی پوسٹ کلیئرنس آڈٹ ہمایوں خان سکندری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس تحقیقات کی تصدیق کی اور کہا کہ سب کچھ ایک طریقہ کار کے تحت ہورہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ متعلقہ کلیکٹریٹس کو شوکاز نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں اور اس کے بعد ریکوری کا مرحلہ آئے گا۔