حکومت عارف حبیب پر مہربان کیوں ہے؟
حکومت کھاد فیکٹریوں سے 145 ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئی تھی مگر عارف حبیب گروپ کے فاطمہ فرٹیلائزر اور حسین داؤد کی اینگرو فرٹیلائزر نے اس سلسلے میں عدالتی چارہ جوئی کے ذریعے حکومت کے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا ، اس کے باوجود سوال یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان ایک نجی ملکیتی کمپنی کوعالمی مارکیٹ سے قرضہ لینے کے لیے اپنی گارنٹی کیوں فراہم کر رہی ہے؟
حکومت نے ملک کے ایک بڑے سرمایہ کار گروپ عارف حبیب کو امریکہ میں سرمایہ کاری کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیاہے،جس کے لیے عارف حبیب گروپ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ضمانت پر جاری کئے گئے بانڈز کے ذریعے تقریباً تیس کروڑ ڈالر قرضہ لے کر امریکی ریاست انڈیانا میں یوریا کھاد کے ایک منصوبے میں سرمایہ کاری کرے گا۔عارف حبیب گروپ کو امریکہ میں اس بڑی سرمایہ کاری کی اجازت ان حالات میں دی جا رہی ہے جب پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کی تمامتر حکومتی کوششوں یا دعوؤں کے باوجود براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم سال بسال مسلسل گر تا چلا جا رہا ہے۔
عارف حبیب گروپ کو بیرون ملک سرمایہ کاری کے لیے قرضے پر حکومتی ضمانت کی سبز جھنڈی حالیہ دنوں گروپ کے سربراہ عارف حبیب اور وزیر خزانہ اسحق ڈار کی ایک ملاقات کے دوران دکھائی گئی۔ یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، وزیر خزانہ اسحق ڈار کی طرف سے چالیس کروڑ ڈالر بیرون ملک منتقل کرنے کا انکشاف کر رہے تھے۔ حکومت کی طرف سے عارف حبیب گروپ کو دی گئی اس اجازت کے بعد اس سرمایہ کار گروپ کا ذیلی ادارہ فاطمہ فرٹیلائزر بین الاقوامی مارکیٹ میں سات سال کے لیے بانڈ جاری کرے گا جس سے حاصل ہونے والی تقریباً تیس کروڑ ڈالر کی رقم امریکہ میں مڈ ویسٹ فرٹیلائزر کمپنی کے یوریا پلانٹ کی تعمیر میں لگائی جائے گی۔ ستمبر 2012 ء میں امریکہ میں رجسٹرڈ کی جانے والی یہ کمپنی دو ارب ڈالر سے زائد کی لاگت سے 2016 ء تک ریاست انڈیانا میں یوریا کا پلانٹ لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
حکومت پاکستان نے جس نجی ادارے کو عالمی مارکیٹ سے بھاری قرضے لینے کے لیے اپنی ضمانت کی یقین دہانی کرا دی ہے، امریکہ میں اس کمپنی کو ریاست انڈیانا کی طرف سے قرضہ فراہم کرنے کے لیے 1.3 ارب ڈالر کے بانڈز جاری کئے گئے ہیں۔مگر امریکہ اور پاکستان کی حکومتیں کھاد کے اس کارخانے پر آخر اس قدر مہربان کیوں ہیں کہ ایک طرف حکومت پاکستان اس کے حصہ دار کو اپنی ضمانت پر قرض حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے اور دوسری طرف امریکہ اس کی نصف سے زائد لاگت کے برابر رقم کا بندوبست کرنے کے لیے ریاست انڈیانا کی پوزے کاونٹی (جہاں یہ کھاد فیکٹری لگائی جائے گی) کاڈیزاسٹر ریلیف بانڈ جاری کرتی ہے ، جو کہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔
عارف حبیب گروپ کو بیرون ملک سرمایہ کاری کے لیے قرضے پر حکومتی ضمانت کی سبز جھنڈی حالیہ دنوں گروپ کے سربراہ عارف حبیب اور وزیر خزانہ اسحق ڈار کی ایک ملاقات کے دوران دکھائی گئی۔ یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، وزیر خزانہ اسحق ڈار کی طرف سے چالیس کروڑ ڈالر بیرون ملک منتقل کرنے کا انکشاف کر رہے تھے۔
مڈ ویسٹ فرٹیلائزر کمپنی اگرچہ رجسٹر 2012 ء میں ہوئی مگر اس کے تصور کی بنیاد 2010ء میں پڑی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب امریکہ پر یہ واضح ہو چکا تھا کہ افغانستان میں اپنی ہر ممکن کوشش کے باوجود طالبان کے جاں لیوا حملوں کا کوئی توڑ ان کے پاس نہیں ہے۔غیر ملکی افواج کو چکرا کر رکھ دینے والا یہ ہتھیار ، گھریلو ساختہ بارودی سرنگیں تھیں ، جنہیں طالبان سڑکوں کے کنارے دبا دیتے ، جس کے پھٹنے سے فوج کو غیر معمولی نقصان اٹھانا پڑتا۔ اس سادہ ، کم خرچ مگر انتہائی مہلک ہتھیار کی شدت کا اندازہ لگائیں کہ 2008 ء سے 012 ء تک افغانستان میں مرنے والے غیر ملکی فوجیوں میں سے اوسطاً 60 فیصد کے قریب اسی کا نشانہ بنے۔شدت پسند اس انتہائی مہلک ہتھیار کی تیاری کے لیے کیلشیم امونیم نائٹریٹ کھاد استعمال کرتے تھے۔اگرچہ ایران اور ازبکستان میں بھی یہ کھاد تیار کرنے کے کارخانے ہیں تاہم امریکی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ افغانستان میں ان کے خلاف استعمال ہونے والی بارودی سرنگوں میں استعمال ہونے والی کھاد پاکستان سے آتی ہے اور پاکستان میں صرف فاطمہ فرٹیلائزر اور پاک عرب فرٹیلائزر کے پاس یہ کھاد تیا ر کرنے کے کارخانے ہیں۔یہ دونوں ادارے عارف حبیب گروپ کی ملکیت ہیں۔2009 ء اور 2010ء افغانستان میں آئی ای ڈیز سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں غیر معمولی حد تک بڑھ گئی ، جس کے بعد مارچ 2011 ء میں امریکہ میں لیفٹینٹ جنرل مائیکل ڈی باربیرو کو Joint Improvised Explosive Device Defeat Organization (JIEDDO) کا سربراہ مقرر کیا گیا۔جنرل ڈی بار بیرو کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے ،جو انہوں نے اپنی تقرری کے کچھ عرصہ بعد امریکی سینٹ کے سامنے ایک بریفنگ میں دیا تھا ، کہ افغانستان میں فوجی قافلوں کو نشانہ بنانے والی ستر فیصد بارودی سرنگوں میں کیلشیم امونیم نائٹریٹ استعمال ہو رہی ہے۔ اس بریفنگ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ کھاد تیار کرنے والی کمپنی فاطمہ فرٹیلائزر اس سلسلے میں امریکی حکام کے ساتھ نہایت کم تعاون کر رہی ہے۔تاہم JIEDDO کا چارج سنبھالنے کے چند ماہ بعد اگست 2011ء میں جنرل ڈی باربیرو نے فاطمہ گروپ کے چئیر مین اور پاک عرب فرٹیلائزر کے سی ای او فواد مختار کو فون کر کے ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ مختصر یہ کہ کچھ عرصہ بعد فاطمہ گروپ کے چیئرمین اور آئی ای ڈی کے تدارک کے لیے کام کرنے والے امریکی فوج کے شعبے کے سربراہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر آرلنگٹن میں جنرل مائیکل ڈی باربیرو کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات دوارنیے کے لحاظ سے اگرچہ صرف آدھے گھنٹے تک محدود رہی ،مگر اس کے نتائج انتہائی وسیع ثابت ہوئے۔مڈ ویسٹ فرٹیلائزر کمپنی کی داستان ایک فوجی جنرل اور ایک کامیاب بزنس مین کی اسی مختصر ملاقات کا حاصل ہے۔
عارف حبیب کے لیے اس انتہائی پر کشش پیشکش کے ساتھ امریکہ نے تقریباً وہ سبھی کچھ حاصل کر لیا جو کیلشیم امونیم نائٹریٹ سے بنے بموں کے خطرے سے بچنے کے لیے وہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔امریکی تجویز پر فاطمہ گروپ نے سب سے پہلے اس مخصوص کھاد کی فروخت کے نظام کی کڑی نگرانی کا نظام قائم کیا۔ یہ یقینی بنایا گیا کہ کیلشیم امونیم نائٹریٹ خریدنے والوں کے قومی شناختی کار ڈ کی نقل رکھی جائے۔ جب اس سے کچھ خاص فائدہ نہ ہوا تو اس کھاد کی بوری کو خاص رنگ دیا گیا جس سے فضا سے بھی اس کی پہنچان ممکن ہو گئی۔ اس سے اگلا حربہ یہ تھا کہ کھاد کی کی بوریوں میں خاص قسم کی چپ ڈال دی گئیں۔اس طرح امریکہ کو شدت پسند وں کے نیٹ ورک کی جاسوسی کا ایک ایسا نادر ذریعہ مل گیا جس کی مدد سے کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے کئی بڑے شدت پسندوں کو ہلاک کیا اور آئی ای ڈیز بنانے والے نیٹ ورک کو بڑی حد تک تباہ کر دیا۔
اس تعاون کے بدلے مڈ ویسٹ فرٹیلائزر کمپنی وجود میں آئی اور عارف حبیب کے فاطمہ گروپ کو نہ صرف اس میں شامل کیا گیا بلکہ اس کے پنتالیس فیصد حصص بھی اسے دے دئیے گئے۔ اتفاق سے یہ کمپنی اسی شہر میں رجسٹر ہوئی جہاں کچھ عرصہ قبل فاطمہ گروپ کے چیئرمین کی امریکی جنرل ڈی باربیرو سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس کمپنی کا پہلا کنٹرولر یاسر امتیازکو مقرر کیا گیا، جنہوں نے ستمبر 2013 ء میں یہ عہدہ سنبھالا، اس سے قبل وہ لاہور میں فاطمہ گروپ کی ذیلی کمپنی پاک عرب فرٹیلائزر کے ہیڈ آف پلاننگ کے عہدے پر تعینات تھے۔ فاطمہ گروپ پر امریکہ کی مزید نوازش یہ تھی کہ نومبر 2012ء میں پوزے کاونٹی کوڈیزاسٹر ریلیف کے سلسلے میں خصوصی گرانٹ جاری کی جس کا 1.3 ارب ڈالر ریاست مڈ ویسٹ فرٹیلائزر کو بطور قرضہ دے دیا گیا۔
اس طرح مڈ ویسٹ کمپنی کے نسبتاً آسان راستے سے ہو کر فاطمہ گروپ امریکہ میں بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کئے ہوئے تھا کہ امریکہ نے ترپ کا پتہ پھینکا۔ امریکہ افغانستان سے بڑے پیمانے کے انخلا کے بعد کے لیے بھی آئی ای ڈیز کے خطرے کا خاتمہ چاہتا تھا چنانچہ ریاست انڈیانا کے گورنر نے مڈ ویسٹ کمپنی پر اچانک دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ، ساتھ ہی دھمکی بھی دے ڈالی کہ پوزے کاونٹی میں اس یوریا پلانٹ کے لیے دی گئی 219 ایکڑ زمین سمیت اس کھاد فیکٹری کو دی گئی تمام مراعات ختم کر دی جائیں گی۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ فاطمہ گروپ کے پاس دوسری کوئی راہ نہ تھی، اب کے بار امریکی یہ منوانا چاہتے تھے کہ کیلشیم امونیم نائٹریٹ کا وہ اپنا پرانا فارمولہ ترک کر کے نئے امریکی فارمولے کے مطابق کھاد تیار کریں، جس میں دھماکہ خیز مواد نائٹریٹ کی مقدار کو انتہائی کم کر دیا گیا تھا۔ فاطمہ گروپ 2013 ء کے آخر سے اسی امریکی فارمولہ کے مطابق کیلشیم امونیم نائٹریٹ کھاد تیار کر ہا ہے۔ بارودی سرنگوں کے انسداد کے لیے کام کرنے والے امریکی فوج کے ادارے JIEDDOنے گذشتہ برس نومبر میں پاکستان میں اور امریکی ریاست نیواڈا میں اس نئے فارمولے پر تیار کی گئی کیلشیم امونیم نائٹریٹ کا تجزیہ کیا ، فاطمہ گروپ کی طرف سے ہر طرح کے تعاون کے اطمینان کے بعد مڈ ویسٹ پلانٹ کی راہ سے رکاوٹیں پوری طرح سے ختم ہو گئیں۔
تاہم عارف حبیب گروپ کاامریکہ کے ساتھ یہ تعلق حکومت پاکستان کے لیے کھاد فیکٹریوں سے گیس انفراسٹکچر ڈیویلپمنٹ سیس کی وصولی میں بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ جی آئی ڈی سی کی مد میں حکومت کھاد فیکٹریوں سے 145 ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئی تھی ،مگر عارف حبیب گروپ کے فاطمہ فرٹیلائزر اور حسین داؤد کی اینگرو فرٹیلائزر نے اس سلسلے میں عدالتی چارہ جوئی کے ذریعے حکومت کے اس منصوبے کو تقریباً ناکام ہی کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وزیر خزانہ اسحق ڈار نے جس ملاقات میں عارف حبیب کو بیرونی قرضوں کے لیے حکومتی سرپرستی کا یقین دلایا وزیر خزانہ نے اس میں عارف حبیب سے جی آئی ڈی سی کے مسئلے میں تعاون کی استدعا بھی کی۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان ایک نجی ملکیتی کمپنی کوعالمی مارکیٹ سے قرضہ لینے کے لیے اپنی گارنٹی کیوں فراہم کر رہی ہے۔اس سے قطع نظر کہ حکومت کس اصول یا ضابطے کے تحت ایک نجی ملکیت کو عالمی سطح پر قرضہ لینے کی یہ سہولت فراہم کر رہی ہے، نیز یہ کہ اس وقت جب حکومت کی ساری توجہ ملک کے اندر سرمایہ کاری لانے کی طرف مبذول ہونی چاہیے، آخر کس اخلاقی یا اصولی بنیاد پر ملک کے ایک سرمایہ کارادارے کو ملک کے بجائے بیرون ملک سرمایہ کاری کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔
عون علی
Why govt favour arif Habib ? They r all corrupt…..and enemies of Pakistan. Rehan dubai
I must appreciate your story-courge and knowledge -style of writing is also impressive-very informative but one thing is missing,that is poit of view of arif habib group-when ever you publish such an important and investigative story ,you should also contact and try to get other side views also for your readers-rgds
salik majeed -karachi
very good story i like your courage and knowledge