Published On: Mon, Jun 8th, 2015

روہنگیا کے مسلمان ، جن کا کوئی ملک نہیں

Share This
Tags
ویسے تو روہنگیا مسلمانوں اور برما کی ریاست رکھائین کے بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان جھگڑا ڈیڑھ صدی پر محیط ہے، جب انگریز کے دور میں بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں سے بڑی تعداد میں محنت مزدوری کرنے والے غریب مسلمان فصلوں میں کام کرنے کے لیے برما کی ریاست رکھائین میں آباد ہونا شروع ہوئے، لیکن پچھلے چار پانچ عشروں سے برما میں قائم فوجی آمریت نے اس جھگڑے کو ایک بہت بڑے بحران میں تبدیل کر دیا ہے۔
کئی ہزار سالوں سے برما کے لوگوں کا اکثریتی مذہب بدھ مت رہا ہے، اور آج بھی وہاں کی 80 فیصد آبادی کا مذہب بدھ مت ہے۔ برما کی ریاست رکھائین جسے اراکان بھی کہتے ہیں، کے بارے میں ڈاکٹر یاک لیڈر، جو اقوامِ متحدہ کی برما کوآرڈینیٹر کے مشیر ہیں، کا کہنا ہے کہ اوائل میں مسلمان اس ریاست میں سولہویں صدی عیسوی میں آباد ہونا شروع ہوئے، البتہ اس بات پر اختلافِ رائے موجود ہے کہ وہاں آباد ہونے والے مسلمانوں کہاں سے آئے تھے۔
روہنگیا تحریک سے تعلق رکھنے والے کچھ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا وہاں کے مقامی لوگ تھے جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔ کچھ کا دعویٰ ہے کہ وہ عرب تاجروں کی اولاد ہیں جو کچھ صدیوں پہلے یہاں آباد ہو گئے تھے۔ جبکہ برما کی فوجی حکومت کی قیادت میں برما کا سرکاری موقف ہے کہ روہنگیا مسلمان بنگالی آباد کار ہیں جو انگریز دور میں وہاں آباد ہوئے تھے، اس لیے انہیں واپس چلے جانا چاہیے۔
روہنگیا مسلمانوں کا پاکستان کے ساتھ بھی تھوڑا بہت تعلق بنتا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ روہنگیا مسلمان پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے، اور شاید برما میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف حالیہ ظلم و ستم کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہو۔ یہ اس دور کی بات ہے جب پورے برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی، اور برما بھی برٹش راج کی عملداری میں تھا۔ چونکہ سارے علاقے انگریز کے زیر اثر تھے، اور نئے ملک وجود میں نہیں آئے تھے، اس لیے نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں تھی۔
برما کی ریاست رکھائین چونکہ سابقہ مشرقی پاکستان کی سرحد کے ساتھ ملحقہ تھی، اس لیے جب برصغیر میں پاکستان کی تحریک چل رہی تھی، تو روہنگیا مسلمانوں نے بھی ایک علیحدگی پسند تحریک کا آغاز کیا تاکہ رکھائین کی ریاست کو مشرقی پاکستان کے ساتھ شامل کروایا جا سکے۔ ان کے ایک وفد نے قائد اعظم کے ساتھ بھی ملاقات کی اور اراکان کی ریاست کو مشرقی پاکستان میں شامل کروانے کے مطالبے کو پاکستان کی تحریک کا حصہ بنانے کی درخواست کی۔
انہوں نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لینے کے لیے اراکان مسلم لیگ کی بنیاد بھی رکھی، لیکن روہنگیا مسلمانوں کا پاکستان میں شامل ہونے کا خواب ادھورا رہ گیا۔
روہنگیا مسلمان پاکستان میں شامل تو نہ ہو سکے لیکن برما کی اشرافیہ نے ان کی اس کوشش کو شاید کبھی معاف نہیں کیا۔ اس سے پہلے دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی روہنگیا مسلمانوں اور مقامی بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان خونی تصادم ہو چکا تھا۔
burmaروہنگیا اور مقامی بدھ آبادی کے درمیان چپقلش کی اصل وجوہات میں معاشی مسابقت کا پہلو بہت زیادہ اہم نہیں ہے، بھلے ہی روہنگیا قوم کے لوگ زیادہ تر غریب اور کم پڑھے لکھے ہیں جو اراکان ریاست کے مضافاتی علاقوں میں آباد ہیں۔ چپقلش کی اصل وجہ مذہبی ہے۔
روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں بہرحال پورے خطے میں جاری مذہبی بنیادوں پر ہونے والے تصادموں سے الگ ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اور بین الاقوامی میڈیا اب تقریباً متفقہ طور پرروہنگیا مسلمانوں کو دنیا بھر میں بربریت کی سب سے زیادہ شکار ہونے والی اقلیتوں میں شمار کر رہے ہیں۔ اگرچہ برما میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد صرف 7 سے 8 لاکھ تک ہے، لیکن برما کی حکومت اور اشرافیہ کسی طور پر انہیں تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
اس حالیہ بحران کے بیج برما میں قائم ہونے والی 1962 کی فوجی آمریت کے بوئے ہوئے ہیں۔ جنرل نے وِن نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد روہنگیا مسلمانوں کے خلاف آپریشن شروع کیے، جو 1982 میں برمی قانونِ شہریت کے نفاذ پر منتج ہوئے، جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو برما کی شہریت سے محروم کر دیا گیا اور انہیں بنگالی مہاجر قرار دے دیا گیا۔
اس وقت سے لاکھوں روہنگیا اپنے ہی ملک میں بے گھر اور بے ریاست ہونے پر مجبور ہو گئے، یعنی وہ دنیا کی ان بدقسمت اقلیتوں میں شامل ہو گئے جو اس کرہ ارض پر تو رہتے ہیں، لیکن قانونی طور پر کسی بھی ملک کے شہری نہیں ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2004 کی رپورٹ کے مطابق برما میں روہنگیا مسلمان مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں، اور ان کی نقل و حرکت، تعلیم، اور شادیوں پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔
اسی طرح ان پر مختلف قسم کے ظالمانہ ٹیکس، زمین کی ضبطگی، اور گھروں کو مسمار کرنے جیسے مظالم بھی ڈھائے جا رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے، غیر انسانی سلوک کے خاتمے کے لیے کوششیں کر چکی ہے، اور حال ہی میں امریکہ کی طرف سے بھی مطالبہ آیا ہے کہ برما روہنگیا مسلمانوں کو شہریت کے بنیادی حق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ لیکن برما کی فوجی حکومت انہیں کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نظر نہیں آتی۔
برما میں رائج نصف صدی پر محیط فوجی آمریت کے جرائم کے لمبی فہرست میں ریاستی سرپرستی میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام بھی شامل ہے۔ 2012 میں رکھائین ریاست میں Wirathu on timesجو ہنگامے پھوٹے، اس کے نتیجے میں 70، 80 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، بہت سے زخمی ہوئے، اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اگرچہ ان میں زیادہ تر ہلاک ہونے والے، زخمی ہونے والے، اور نقل مکانی پر مجبور ہونے والے روہنگیا مسلمان تھے، لیکن برما کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ تشدد دونوں اطراف سے کیا گیا۔
ماضی کے ان سارے واقعات نے 2015 کے حالیہ بحران کو جنم دیا، جب ہزاروں روہنگیا مسلمان عشروں سے جاری ظلم سے بچنے کے لیے اسمگلروں کی کشتیوں میں سوار ہو کر دوسرے ملکوں کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سے پہلے بھی روہنگیا مسلمان برما میں ظلم سے بچنے کے لیے دوسرے ملکوں میں ہجرت کر چکے ہیں، جن میں سے بہت سے کراچی میں آباد ہو گئے تھے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد 2 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ لیکن پچھلے چند ماہ سے جاری بحران میں نیا موڑ یہ آیا ہے کہ ہزاروں روہنگیا مسلمان سمندر میں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں محصور ہوئے پڑے ہیں، کیونکہ کوئی بھی ہمسایہ ملک ان کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بہت سے اس دوران ہلاک ہو چکے ہیں، چند خوش قسمت کامیابی سے تیر کر یا کسی طرح ساحلوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، لیکن زیادہ تر کئی مہینوں سے کھلے سمندر میں کشتیوں میں بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں۔ ہمسایہ ممالک نے اپنے ساحلوں کی نگرانی بڑھا دی ہے تاکہ کوئی کشتی ساحل تک نہ پہنچ سکے، البتہ وہ ممالک انہیں تھوڑا بہت پانی اور خوراک مہیا کر رہے ہیں۔
حسبِ روایت اسلامی ممالک اور اسلامی ممالک کی تنظیم اس سارے بحران پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ جب پوری دنیا کے میڈیا پر اس بحران پر شور مچ رہا ہے اور کئی مہینوں سے یہ بحران جاری ہے، اسلامی ممالک کی تنظیم ابھی تک روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کر سکی۔ 57 مسلم ممالک پر مشتمل یہ تنظیم چند ہزار روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ نہ تو یہ تنظیم برما کی حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی ان چند ہزار روہنگیا مسلمانوں کو کوئی مسلم ملک قبول کرنے کو تیار ہے۔
کیا یہ سوال ذہن میں نہیں ابھرتا کہ اس طرح کی تنظیم کا آخر کیا فائدہ ہے جو عملی طور پر مسلمانوں کا کوئی مسئلہ ہی حل نہ کر سکے؟ اسی طرح امن کی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوکی جنہیں برما کی فوجی آمریت کے ہاتھوں حالیہ تاریخ کی سب سے طویل ترین سیاسی قید کی بنا پر دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے برما کے مظالم پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ البتہ دلائی لامہ نے ان پر زور دیا ہے کہ وہ بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کو محفوظ بنانے کے لیے کوششیں کریں۔
روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کو روکنے کے لیے بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ انہی کی کوششوں سے یہ مسئلہ ایک بین الاقوامی مسئلے کے طور پر اجاگر ہوا ہے۔ لیکن چونکہ روہنگیا مسلمانوں کے اوپر زمین تنگ ہونے کی بڑی وجہ ان کا مذہب ہے، اس لیے مسلم ممالک پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی مدد کے لیے زبانی جمع خرچ اور بے فائدہ مظاہروں اور نعرہ بازی سے بڑھ کر بھی کچھ کریں۔
یا تو اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ ملکر برما میں ان کو شہریت کے حقوق سمیت دیگر انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کریں، یا پھر برما میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کی مسلم ممالک میں آباد کاری کا انتظام کیا جائے۔ کیا 7 سے 8 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کے لیے 57 مسلم ممالک کی زمین اتنی ہی ناکافی ہے؟

عدنان رندھاوا

Leave a comment