غزہ کی تباہی اورمغرب کی سودے بازی
اسرائیل جانتا ہے کہ غزہ پٹی میں ایک حد تک تو پیش قدمی کی جا سکتی ہے، آگے بڑھنا موت کے کنویں میں چھلانگ لگانے کے متراف ہے
چند ہفتوں کی جنگ میں 1984 ہلاک، 9814 زخمی، 9 ہزار مکان تباہ،60 مساجد شہید،
انٹرنیشل ڈیسک
یہ ہیں غزہ پٹی میں اسرائیلی جارحیت کے کچھ اعداد و شمار جو غزہ میں اسرائیل کی بربریت کی کہانی بیان کر رہے ہیں جو دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ غزہ کو اسرائیل نے کس طرح تباہ کیا، لاشوں کا پہاڑ بنایا۔ اسرائیل کا مقصد کیا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے اسرائیل تمام حدوں کو پار کر رہا ہے مگر دنیا خاموش ہے، اس مرتبہ غزہ کی جنگ نے جہاں اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی انتہاکا دیدار کرایا ہے وہیں عرب دنیا کی گندگی کو بھی اجاگر کیا ہے۔ جنگ بندی کے نام پر دراصل غزہ میں تباہی کے اعداد و شمار سامنے آ سکے ہیں کیونکہ فی الحال فلسطینوں کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یورپی یونین اور دیگر مغرب زدہ ممالک غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ لے کر آئے ہیں مگر اس کے عوض میں حماس کا سر چاہتے ہیں۔ یہ ممالک غزہ میں چار چاند لگانے کو تیار ہیں مگر اس کے لئے غزہ کو حماس کا خاتمہ قبول کرنا ہو گا۔صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اسرائیل کی جارحیت کے بعد اس کو سزا دینے کے بجائے مغرب نے فلسطینوں سے امداد کی قیمت وصول کرنی شروع کر دی ہے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کی حیوانیت پر لعنت بھیجی ہے، اس کو جنگی جرائم قرار دیا ہے اور اسرائیل کی بربریت پر مذمت کی ہے مگر مذمت اور تنقید سے آگے اقوام متحدہ بھی نہ بڑھا سکا جب کہ امریکہ خود کہہ رہا ہے کہ اسرائیل غلط کر رہا ہے مگر دنیا میں سب سے کنٹرول رکھنا ممکن نہیں۔
غزہ پٹی میں اسرائیلی حملوں کے دوران 69مساجد شہید ہوئی ہیں۔ اسرائیل نے اسپتالوں، اسکولوں اور مساجد کو چن چن کر نشانہ بنایا ہے۔ تقریباً 150 مساجد کو نقصان ہوا ہے، اسکول، اسپتال اور مساجد پر حملوں نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ اسرائیل کی درندگی کا کیا عالم ہے۔ یتیم خانے اور معذور بچوں کے اسکول کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اب غزہ پٹی کے تباہ حال فلسطینی ملبے سے سامان چن رہے ہیں مگر ان کے سر اٹھے ہوئے ہیں کیونکہ اسرائیل نے غزہ پٹی میں زمینی حملے کا آغاز کر دیا تھا تو یہی کہا تھا کہ غزہ کی زمین کو ہموار کر دیا جائے گا، تمام عمارتوں کو زمین بوس کر دیا جائے گا مگر زمینی جنگ میں جب اسرائیل کو فوجیوں کا جانی نقصان ہوا تو اسرائیل کو بہت کچھ سوچنا پڑا۔ 97 فوجیوں کو گنوانے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی سے انخلاء کیا ہے جس بار ے میں مغربی تجزیہ کار وں نے کہا ہے کہ اسرائیل کیلئے غزہ میں مزید اندر داخل ہونا خطرناک ثابت ہو رہا تھا۔ اسرائیل جانتا ہے کہ غزہ پٹی میں ایک حد تک تو پیش قدمی کی جا سکتی ہے، آگے بڑھنا موت کے کنویں میں چھلانگ لگانے کے متراف ہے۔‘‘
دنیا دیکھ رہی ہے کہ حماس کے ہاتھوں گوریلا جنگ کے سبق سیکھنے کے بعد اسرائیلی فوج کو واپس ہونا پڑا۔ تین یاہو حکومت کا یہی ماننا ہے کہ بمباری سب سے محفوظ راستہ ہے جس میں یک طرفہ تباہی ہوتی ہے اس لئے اسرائیل کو غزہ پٹی سے فوج کو واپس بلانا پڑا ہے۔ حماس نے ایک بار پھر اپنا لوہا منوا لیا ہے کہ اسرائیل کے لئے غزہ پٹی میں حماس کے خاتمہ کی جنگ تقریباً ناممکن ہے۔ غزہ میں حماس کو زبردست حمایت حاصل ہے اور فلسطینیوں کیلئے مسلح جدوجہد میں ہی عزت ہے اور اب تو مغربی کنارہ میں بھی حماس کو مقبولیت حاصل ہے۔
اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور عرب ممالک کی کوشش ہے کہ جنگ غزہ کے بعد حماس کو شرائط اور پابندیوں کے جال میں پھنسایا جائے مگر حماس نے بھی جنگ بندی کے لئے جو شرائط رکھی ہیں ان میں غزہ پٹی کا محاصر ختم کرنا بھی شامل ہے۔ اس محاصرے نے ہی فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم بنایا ہے اور اس محاصرہ کے سبب حماس نے سرنگوں کا جال بچھایا ہے جن سے روز مرہ سامان غزہ لایا جا رہا ہے۔
اس جنگ نے 18 لاکھ فلسطینیوں کی زندگی میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کر دیا ہے جس کے دوران ہزاروں افراد بے گھر ہوئے ہیں مگر فلسطینیوں میں حوصلے کی کمی نہیں۔
بین الاقوامی برادری کیلئے یہ کسی المیہ سے کم نہیں کہ اسرائیلی حملوں کی اقوام متحدہ نے جنگی جرائم قرار دیا مگر اس کے باوجود اسرائیل کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ غزہ کے فلسطینیوں کو پیش کش کی جا رہی ہے کہ اگر حماس کا ساتھ ترک کریں تو ان کی زندگی سنوار دی جائے گی۔ تعمیر نو کا حصہ شروع ہو جائے گا، امداد کی بارش ہو جائے گی اور غزہ کو ہرا بھرا بنا دیا جائے گا۔ ایسے وقت میں جب برطانیہ ہو، فرانس، امریکہ یا اٹلی سب کو غزہ پٹی کی غیر مشروط حمایت اور مدد کرنی چاہئے تھی۔ اس وقت زخموں سے چور فلسطینوں سے یورپی برادری حلف نامہ پر دستخط لینے کی کوشش کر رہی ہے کہ حماس کہ ہم مسترد کرتے ہیں۔ یورپی برادری کو سوچنا ہو گا کہ جنگ غزہ نے فلسطینیوں کو مزید ہمت اور حوصلہ دیا ہے۔ غزہ میں تباہی کے باوجود کوئی اس بارے میں سوچنے کو تیار نہیں ہے کہ حماس کا ساتھ چھوڑ دیا جائے، اس کے برعکس مغربی کنارے میں حماس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور فلسطنینوں کی نظر میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی عزت دو کوڑ کی ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود زخموں سے چور فلطینیوں سے یورپی برادری سودے بازی کر رہی ہے۔ تم حماس کو چھوڑ، تو ہم دوا دیں گے۔ تم حماس کو بھول جاؤ تو ہم مکان دیں گے۔
فوج کی واپسی کا راز
حیرت کی بات یہ ہے کہ زمینی حملے کے بعد بلند بانگ دعویٰ کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یا ہونے بغیر جنگ بندی فوج کو غزہ سے واپسی بلایا۔ دنیا یہی سمجھ رہی تھی کہ حماس کی کمر ٹوٹ گئی ہے یا حماس بے دم ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ دراصل زمینی جنگ نے اسرائیل کو پسینہ پسینہ کر دیا تھا اور اسرائیل نے جنگ بندی کے بغیر فوج کو غزہ سے باہر نکال کرآرام گاہ تک پہنچا دیا تھا۔ اسرائیلی اخبارات نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فوجی 15روزہ زمینی جنگ کے بعد تھک گئے تھے اور لا تعداد فوجیوں کی ہلاکت کے سبب جذباتی طور پر کمزور ہو گئے تھے، کیونکہ دنیا بھر کے اخبارات میں ایسے فوٹو شائع ہوئے تھے جن میں اسرائیلی فوجیوں کو اپنے ساتھیوں کے تابوت پر روتے بلکتے دکھایا گیا تھا۔ یہی نہیں، اب اسرائیل میں تیتن یا ہو کی فوجی حکمت عملی پر سوالیہ نشان لگایا جا رہے کہ جنگ بندی کے اعلان کے بغیر فوج کو کیسے واپس بلا لیا مگر نتین یاہو کے لئے یہ کہنا ممکن نہیں کہ فوج تھک گئی تھی۔ فوجیوں کے حوصلے پست ہو رہے تھے اور ساتھیوں کی ہلاکت انہیں توڑ رہی تھی۔ ایک سینئر اسرائیلی فوجی افسر کے مطابق جنگ غزہ میں اب تک اسرائیل کا مقصد پورا نہیں ہو سکا ہے۔ اسرائیلی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں اس حد تک تباہی کی جائے کہ حماس کا زور ختم ہو جائے اور عوام حماس کو سب سے بڑی مصیبت تسلیم کرنے کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو قبول کر لیں۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی تباہی کا اصل مقصد فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت کا خاتمہ کرنا ہے تا کہ مغربی کنارے کے ساتھ غزہ بھی فلسطینی اتھارٹی کے تحت ہو جائے جو کہ محمود عباس کی سیاسی و سفارتی دوکان ہے جو غزہ کی تباہی کے دوران فلسطینوں کے بجائے اسرائیل کے ترجمان نظر آتے تھے۔