اوباما انتظامیہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے مطالبات پرحیران
انٹرنیشنل ڈیسک
اوباما انتظامیہ اور سابق امریکی حکومتی اہلکار شدت پسند گروپوں اور حکومت پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے مطالبات پر حیرت کا شکار ہیں۔ چند پنٹاگون افسران وائٹ ہاؤس سے انہیں معاف کرکے رہائی پر غور کرنے کی درخواست کرچکے ہیں۔
فارن پالیسی میگزین کے ایک آرٹیکل کے مطابق امریکی سینئر سیکورٹی اہلکاروں کے ایک گروپ کو پاکستان میں حکام کی جانب سے امریکی سارجنٹ بوئی برگدھل کے بدلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی پیشکش کی گئی تھی۔
برگدھل 2009 سے گمشدہ تھے، ان کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ انہیں پاکستان میں طالبان فورسز نے حراست میں لے رکھا ہے۔
آرٹیکل میں سابق مرین جو کیسپر کا حوالہ دیا گیا جن کا کہنا تھا کہ ہم اس بات سے واقف ہیں کہ محکمہ دفاع کی کم از کم ایک ہستی کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ انہیں اس ممکنہ تبادلے کی پیشکش کی گئی تھی۔
امریکی حکومت نے اس پیشکش پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا تاہم دہشت گرد اور عسکریت پسند امریکی قیدیوں کے بدلے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا مطالبہ متعدد مرتبہ کرچکے ہیں۔
عسکریت پسند ڈاکٹر عافیہ کو رہا نہ کرنے کی صورت میں برگدھل کو قتل کرنے کی بھی دھمکی دیتے رہے ہیں۔
آرٹیکل کے مصنف لکھتے ہیں کہ ایک امریکی قانون ساز کے مطابق امریکا قیدیوں کے بدلے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے مطالبے کو متعدد بار مسترد کرتے رہے ہیں تاہم محکمہ دفاع کی ایک ٹیم نے ایسا کرنے کی تجویز دے چکی ہے۔
تاہم برگدھل کو مئی میں گونٹانامو بے میں قید پانچ اعلیٰ طالبان قیدیوں کے بدلے رہا کردیا گیا۔ اس ڈیل کی شدید مذمت کی گئی تھی کیوں کہ اس سے عسکریت پسند گروپوں کو رعایت محسوس ہوگی اور یہ قیدی امریکا کے لیے سیکورٹی رسک بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
ایک سابق سینئر آفیشل کے مطابق امریکی انٹیلیجنس ایجنسیاں دو سال قبل اس نتیجے پر پہنتی تھیں کہ رہائی کے بعد یہ قیدی امریکا مخالف سرگیوں میں ملوث ہوجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ برگدھل کے معاملے میں صدیقی کے تبادلے کی تجویز کبھی سیکرٹری دفاع چک ہیگل تک پہنچی ہی نہیں۔ سہی یا غلط یہ بعد کی بات ہے، پہلے تمام آپشنز کو سامنے رکھ کر ان پر غور کرنا ضروری تھا۔
ماہرین کے مطابق سینئر حکام کو پنٹاگون کی ایسی کسی پیشکش کا علم نہیں تھا جبکہ ان کی رہائی قانونی اعتبار سے بھی پیچیدہ تھی۔
ان کے مطابق صدر اوباما ممکنہ طور پر صدیقی کو معاف کردیتے یا ان کی سزا کو تبدیل کردیتے کیوں کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں جس کے تحت پاکستانی قیدی اپنی وطن ہی میں سزا کاٹ سکیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ انتظامیہ اس حوالے سے شاید کو ئی حل تلاش کرلیتی تاہم ایسے کرنے سے وائٹ ہاؤس دہشت گردوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے پر تنقید کا نشانہ بن جاتا۔