جاپان زلزلہ اور سونامی ، قدرتی یا مصنوعی
دنیا کو طے کرنا ہے کہ پاکستان مین آنے والا 2005 ء کا زلزلہ ، 2010 ء کا
سیلاب اور اب 11 مارچ 2011 ء کا زلزلہ اور سونامی مصنوعی تھا یا قدرتی
نصرت مرزا
ایسا کیوں ہے کہ جب بھی امریکی خلا ئی جہازکو خلا میں بھیجا جاتا ہےدنیا میں کہیں نہ کہیں قدرتی آفات آ جاتی ہیں ۔ پچھلے سال 22 اپریل 2010 کو یہ جہاز 9 ماہ کے لئے خلیج فارس، افغانستان، پاکستان اور آبنائے کوریا کی جاسوسی اورضرورت پڑنے پر کسی جگہ حملہ کرنے کے لئے خلاء میں لانچ کیا گیا۔ اس خلائی جہاز سے ہارٹ کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قدرتی آفات مصنوعی طور پر لائی جا سکتی ہیں۔ یہ خلاء میں بھیجا گیا تھا تو 26 جولائی 2010 ء کو پاکستان میں غیر معمولی مون سون مغرب اور مشرق سے اپنے ساتھ بے پناہ تباہی لے کر آیا۔ پاکستان کا 43 بلین سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ اموات 2000 سے اوپر تھیں اور پاکستان کا تقریباً پانچواں حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا مگر یہ خیر ہوئی کہ پاکستان کاجوہری ری ایکٹر پروگرام اس وقت بھی محفوظ رہا اور 2005 ء کے زلزلہ میں بھی اللہ کی مہربانی سے محفوظ رہا۔ اگرچہ یہ زلزلہ پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں آیا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ مصنوعی تھا اور ہارپ کی ٹیکنالوجی استعمال کر کے لایا گیا تھا۔ کچھ کا خیال یہ بھی ہے کہ شاید کسی طاقت کو یہ خیال تھا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات ان پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں، خوشاب کے ایٹمی ری ایکٹر ممکن ہے کہ سیلاب کا ہدف ہو جائیں، کیونکہ اب جاپان کے زلزلے اور سونامی پر ، جو کہ 11 مارچ 2011 ء کو آئی ،کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ بھی منصوعی ہے کیونکہ امریکی خلائی جہاز X37B پانچ مارچ 2011 ء کو خلاء میں چھوڑا گیا تھا ، اس کے ٹھیک 6 روز بعد یہ حادثہ رونما ہوا۔ اس سے جاپان کے 3 ایٹمی رس ایکٹرس متاثر ہوئے ہیں اور ان سے تابکاری اثرات خارج ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس پر انگلیاں امریکہ کی طرف ہی اٹھتی نظر آئی ہیں۔ کیونکہ یہ خبر ہے کہ جاپان کئی دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر یہ کوشش کر رہا تھا کہ ڈالر کو لین دین کی کرنسی کے طور پر ختم کر ایک نئی کرنسی کو جنم دینا جائے اور جاپان کا شہنشاہ چین کے صدر سے تین مرتبہ مل چکا ہے۔ ہیزل ٹاکانا کو یہ دھمکی دی گئی تھی کہ وہ اپنا مالی نظام امریکہ کے حوالہ کر دے نہ ورنہ اس پر زلزلہ سے حملے کر دیا جائے گا۔ یہ خبر یو ٹیوب پربھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اگر یہ خبر صحیح ہے تو پھر امریکہ کے عزائم تو یہی ہیں کہ دنیا میں وہ اپنی بالا دستی قائم رکھے گا اور کسی اور طاقت یا طاقتوں کے گروپوں کو اس کی بالادستی کو چیلنج کرنے نہیں دے گا۔ اس نے اس کے لئے دنیا بھر کو چیلنج کیا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں مار دھاڑ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ابھی تک اس کا ہدف صرف مسلم ممالک رہے ہیں کیونکہ بہت کمزور ہیں اور دولت مند بھی اور جرم ضعیفی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
اسلامی ممالک میں حکومت کی تبدیلی کی لہر کو جنم دیا گیا۔ صرف لیبیا نے اس کی مزاحمت کی، ورنہ مصر میں حسنی مبارک چلے گئے مگر فوج اقتدار پر قابض رہو گئی جو امریکہ کے لیے زیادہ سود مند ہے۔ اس پر دنیا کے اکثر دانشور یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کا یہ رویہ سیاسی عزائم کی وجہ سے ہے، نہ کہ مذہبی رجحنات کی وجہ سے۔ دنیا کو بہرحال یہ طے کرنا پڑے گا کہ پاکستان کا 2005 ء کا زلزلہ اور 2010 ء کا سیلاب اور اب 11 مارچ 2011 ء کا زلزلہ اور سونامی مصنوعی تھا یا قدرتی۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ قدرتی حادثات تھے تو امریکی یہ کیوں کہتے ہیں کہ موسم میں ایسے تغیرات لائے جا سکتے ہیں جو بارش برسا سکتے ہیں، اور زلزلہ لا سکتے ہیں یا کسی جہاز کے انجن کو کسی خاص جگہ سے 250 کلومیٹر پہلے ہی ایک چھوٹی سی شعاع سے پگھلایا جا سکتا ہے، کسی خاص ملک یا علاقے کے گرد شعاعوں کا دیوار چین جیسا حصار قائم کیا جا سکتا ہے مگر معروف امریکی سائنسدانوں نے اس نظریے کو یہ کہہ کر مشہور نہیں ہونے دیا کہ ان کے نظریے کو قبول کر لیا جائے تو یہ کرۂ ارض کو توڑ دے گا مگر امریکی حکومت نے ان کے نظریے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پنٹاگون کو ذمہ داری سونپی۔ پنٹاگن نے High Frequency Active Aurol Research Program پر کام شروع کیا اور الاسکا سے 200 میل کی دوری پر ایک انتہائی طاقتور ٹرانسمیٹر نصب کیا۔ 23 ایکڑ پلاٹ پر 180 ٹاورس پر 72 میٹر لمبا انٹینا نصب کیا جس کے ذریعے 3 ملین واٹ کی طاقت کی 2.5-10 Electromagnetic Wave میگا ہرٹز کی فریکوئنسی سے چھوڑی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکین اسٹار وار، میزائل ڈیفنس اسکیم اور موسم میں اصلاح اور انسان کے ذہن کو قابو میں کرنے کے پروگراموں پر عملدر آمد کر رہی ہے۔ موسمی تغیرات پیدا کرنے کے لئے ایک کم مگر طے شدہ کرۂ ارض کی فضائی تہوں میں کہیں بھی جہاں موسمی تغیر لانا ہو، وہ الاسکا کے اس اسٹیشن سے ڈالی جا سکتی ہے جو کئی سو میلوں کی قطر میں موسمی اصلاح کر سکتی ہے۔ امریکہ میں کسی بھی ایجاد کو رجسٹر کرانا ضروری ہے اوراس میں اس کا مقصد اور اس کی تشریح کرنا ضروری ہے چنانچہ High Frequencey Active Aurol Resarch Program کا پیٹنٹ نمبر 4,686,605 ہے۔ اس کے ناقدین نے اس کا نام جلتی ہوئی شعاعی بندوق رکھا ہے۔ اس پیٹنٹ کے مطابق، یہ ایسا طریقہ اور آلہ ہے جو کرۂ ارض کے کسی بھی خطے میں موسمیاتی تغیر پیدا کرے اور جدید میزائل اور جہازوں کو روک دے یا ان کا راستہ بدل دے، کسی پارٹی کے مواصلاتی نظام میں مداخلت کرے یا اپنا نظام مسلط کر دے۔ دوسروں کے انٹیلی جنس سنگل کو قابو میں کرے اور میزائل یا ایئر کرافٹ کو تباہ کر دیس کو موسمی اصلاح کا نام دیا گیا۔ پیٹنٹ کے مطابق موسم میں شدت لانا، تیزی یا گھٹنا، مصنوعی حدت پیدا کرنا، اس طرح بالائی کرۂ ارض میں تبدیلی لا کر طوفانی سانچہ یا سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے کے قرینے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اس طرح وہ زمین کے کسی بھی خط پر انتہائی سورج کی روشنی، حدت کو ڈالا جا سکتا ہے۔
ایسا بھی کیوں ہے کہ 1970 ء میں بزرنسکی نے جہاں یہ کہا تھا کہ وہ دنیا کے طاقت کے محور کو امریکہ لے گئے ہیں اور اب کبھی یورو ایشیا میں نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ زیادہ قابو میں رہنے والی اور ہدایت کے مطابق چلنے والی سوسائٹی امریکی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ترقی کرے گی، معاشرے یا اس کرۂ ارض کے لوگ ان لوگوں کے حکم پر چلیں گے جو زیادہ سائنسی علم رکھتے ہوں۔ یہ عالم لوگ روایتی اور منافقانہ یا بے تعصبی سے قطع نظر اپنے جدید ترین ٹیکنالوجی کو سیاسی عزائم کے حصول کے لئے بروئے کار لانے سے گریز نہیں کریں گے اورعوامی عادتوں اور معاشرے کو کڑی نگرانی اور قابو میں رکھنے سے دریغ نہیں کریں گے جس صورت پر کام کیا جا رہا ہو گا اس پر تکنیکی اور سائنسی معیار اور مقدار متحرک کی جائے گی۔ ان کی یہ پیش گوئی آج صحیح ثابت ہو رہی ہے۔ آج امراء سامنے آرہے ہیں اورسائنس کو بروئے کار لا کر زلزلے، سونامی، موسم میں تغیر جہازوں کے راستے، جہازوں کو گرایا جا رہا ہے اور سیلاب لائے جا رہے ہیں۔ اس طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے جاپان پر دوسرا ایٹمی حملہ کر دیا ہے۔ NIbiria Tv کے اینکر نے کہا کہ الاسکا میں موجود زلزلہ اور سونامی لانے والے اسٹیشن کو امریکی فضائیہ بمباری کر کے تباہ کر دے جس سے اب تک 5 لاکھ سے اوپر افراد مارے جا چکے ہیں۔ امریکہ دنیا بھر کا باس بن گیا ہے اور ساری دنیا کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ وہ تیسری عالمگیر جنگ شروع کرنا چاہتا ہے، اس لئے مغربی ممالک جو خود بھی امریکی بالادستی رعونت اور فرعونیت کی وجہ سے تنگ ہیں، امریکہ کو تیسری عالمگیر جنگ شروع کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے۔