ریاض بسرا کو پکڑنے والے سی آ ئی ڈی کے سربراہ کرنل (ر)خورشید کیساتھ کیا ہوا؟
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لکھنے کے لئے ایک سے زیادہ موضوعات میز پر موجود ہوتے ہیں، کچھ ایسی ہی صورتحال کا شکار اب بھی ہوں۔ ملک اسحاق پر لکھنے سے پہلے میں کرنل(ر) خورشید خان آفریدی کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے پہلے دور حکومت میں سی آئی ڈی پنجاب کے سربراہ تھے۔ یہ وہ دور تھا ۔ جب پنجاب میں بالخصوص اور پورے ملک میں فرقہ واریت کی لہر اپنے عروج پر تھی۔ لشکر جھنگوی سے ریاض بسرا ، ملک اسحاق ، اکرم لاہوری اور عزیز گجر کا ڈنکا بجتا تھا۔ دوسری طرف سپاہ محمد کی طرف سے غلام رضا نقوی ۔ شبیر نقوی اور دیگر کا طوطی بولتاتھا۔ ایسے میں کرنل (ر) خورشید خان آفریدی نے ریاض بسرا کو پکڑنے کا پلان بنا یا۔ انہوں نے ایک ٹریپ سیٹ کیا،جس میں ریاض بسرا سے ان کی ملاقات چندہ دینے کے لئے طے ہو گئی۔ کرنل(ر)خورشید آفریدی دبئی پلٹ کاروباری شخصیت بنے ہوئے تھے۔ پانچ لاکھ روپے چندہ کے لئے لشکر جھنگوی کے ایک کارکن نے ان کی سرگودھا میں ریاض بسرا سے ملاقات طے کروادی۔ جب کرنل صاحب مقررہ جگہ پر پہنچے تو ان کی ریاض بسرا سے ملاقات کروائی گئی۔ جس ریاض بسرا سے کرنل صاحب کی ملاقات کروائی گئی ۔ یہ سی آئی ڈی کے پاس موجود خاکوں کے حساب سے اصلی ریاض بسرا تھا۔ کرنل صاحب نے جب یہ یقین کر لیا کہ یہ اصلی ریاض بسرا ہے۔ تو انہوں نے اسے گرفتار کر نے کی کوشش کی۔و ہاں مقابلہ ہو گیا اور کرنل صاحب نے اپنی طرف سے ریاض بسرا کو مار دیا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو اُس دور میں ریاض بسرا کی ہلاکت کی خبر تمام اخبارات میں لیڈ سٹوری کے طور پرشائع ہوئی۔ پھر جب شناخت کے لئے ریاض بسرا کی ماں کو بلا یا گیا تواس نے واضح طور پر کہہ دیا کہ مرنے والا میرا بیٹا ریاض بسرا نہیں ہے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ واقعی یہ ریاض بسرا نہیں بلکہ اس کا ساتھی شہزاد وڑائچ تھا۔ شہزاد وڑائچ کی شکل اور ڈیل ڈول ریاض بسرا سے شدید مشابہت رکھتا تھا۔ اس لئے شہزاد ورائچ ریاض بسرا کا ڈبل رول معلوم ہوتا تھا ۔
بعد میں شہزاد وڑائچ کے لواحقین نے کرنل صاحب پر قتل کا مقدمہ کر دیا۔ کرنل صاحب نے عدالت میں بیان دیا کہ وہ ریاض بسرا کو پکڑنے گئے تھے اور شہزاد وڑائچ ان کا ٹارگٹ نہیں تھا۔ عدالت نے اس مقدمے میں سی آئی ڈی پنجاب کے سربراہ کرنل (ر) خورشید خان آفریدی کو دس سال قیدبا مشقت کی سزا سنا دی۔ وہ جیل چلے گئے۔ بعد میں انہوں نے بہت منت سماجت سے لواحقین سے ایک بڑی رقم بطور دیت کے عوض صلح کی اور باہر آئے۔ میری اطلاع کے مطابق اس رقم کا ایک بڑا حصہ ابھی اداہونا باقی ہے۔ اور باقی رقم کا کرنل صاحب سے لواحقین تقاضہ کر رہے ہیں۔ کرنل صاحب نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے درخواست کی کہ ان کی دیت کی رقم سرکار ادا کر دے کیونکہ وہ اپنا سارا اثاثہ بیچ چکے ہیں لیکن یہ فائل ابھی سرکاری اداروں میں بھٹک رہی ہے اور کرنل صاحب ایک اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ اس کے کئی سال بعد ریاض بسرا ایک مبینہ پولیس مقابلہ میں مارے گئے۔ یہ پولیس مقابلہ ایک پولیس افسر ریاض شاہ کے ساتھ ہوا تھا۔بعد میں ریاض شاہ نے بھی بیوی بچوں سمیت ملک چھوڑنے میں ہی عافیت جانی ۔
کرنل صاحب کو تو دس سال قید ہو گئی لیکن ملک اسحاق پچاس سے زائد مقدمات میں سے اکثریت میں سے باعزت بری ہو گئے تھے۔ کئی سال جیل میں رہنے کے باوجود ان پر کوئی مقدمہ ثابت نہ ہو سکا۔عدالتوں نے انہیں با عزت بری کر دیا۔ انہیں رہا ہونے کے بعد پھر نظر بند کیا گیا۔ لیکن اعلیٰ عدالتوں نے ان کی نظر بندی بھی ختم کر دی اور وہ رہا ہو گئے۔ اب وہ دوبارہ گرفتار ہوئے تھے کہ ان کا پولیس مقابلہ ہو گیا۔
کیا ملک اسحاق کے مرنے سے ملک میں فرقہ وایت کا ایک باب ختم ہو گیایا اسے سے حالات مزید خراب ہو نگے ؟یہ تو وقت ہی طے کرے گا۔ ان کے دو بیٹے اس پولیس مقابلہ میں مارے گئے ہیں جبکہ دو بیٹے ابھی زندہ ہیں۔ ان کی جماعت کے اکرم لاہوری،عزیز گجر کراچی اور لاہور میں پابند سلاسل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی پنجاب بھرکی جیلوں میں لشکر جھنگوی کے سینکڑوں کارکن قید ہیں۔
یہ وقت جوش نہیں ہو ش کا ہے۔اس وقت ملک اسحاق لشکر جھنگوی ختم کر کے اہل سنت و الجماعت پاکستان کے مرکزی نائب صدر تھے۔ جہاں ان کی مولانا احمد لدھیانوی کے ساتھ قیادت کی چپقلش جاری تھی۔ اسی چپقلش میں پہلے اہل سنت والجماعت پنجاب کے صدر مولانا شمس الر حمٰن معاویہ کا قتل بھی ہو چکا تھا۔ قیادت کی یہ چپقلش اس قدر شدید تھی کہ اہل سنت والجماعت کے لاہور کے امیر کے انتخاب میں مولانا لدھیانوی نے اپنی طرف سے شیخ اکمل جبکہ ملک اسحاق نے ہارون رشید بھٹی کو کھڑا کیا تھا۔ 80 ارکان نے اس انتخاب میں ووٹ کا حق استعمال کرنا تھا اور دونوں امیدواروں کو برابر برابر 40 ووٹ ملے۔ فیصلہ پرچیوں پر ہوا۔ اسی طرح اہل سنت والجماعت کے صوبائی انتخابات میں پورے پنجاب میں ہر ضلع میں یہی صورتحال ہوئی اور ملک اسحاق اور لدھیانوی گروپ ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ایسے میں ملک اسحاق کی ہلاکت کا واقعہ ہو گیا ہے بہر حال ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ایک بھر پور آپریشن جاری ہے اور اس کی کامیابی کی دعا ہر پاکستانی کر رہا ہے۔
مزمل سہروردی