بول ۔۔۔۔ شکایت کنندگان کون ہیں؟ فریادی کہاں ہے؟ کچھ قانونی حقا ئق
وہ آگے کی طرف جھکا، آنکھیں سیکڑیں اور سرگوشی کے انداز میں بولا ”سر جی، کچھ بھی نہیں ہو گا، کیس تو بنتا ہی نہیں“۔یہ کہہ کر وہ واپس سیدھا ہو ا اور معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ میرے چہرے کے تاثرات کو انجوائے کرنے لگا۔ مجھے واقعی شدید حیرت ہوئی کیونکہ میرے سامنے بیٹھا شخص ایک منجھا ہوا وکیل تھا اوریہ رائے اس نے ایگزیکٹ کمپنی کے مالک شعیب شیخ اور ان کے دیگر چھ ساتھیوں کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے قائم مقدمے کے حوالے سے دی تھی۔ میری رائے اس کے برعکس تھی۔ میرا خیال تھا کہ اب انکی کمر ٹوٹ گئی، دکانداری بند ہو گئی، کمپیوٹرز اٹھا لئے گئے، دفاتر سیل ہو گئے، اسٹاف خوفزدہ ہے، اکاؤنٹس منجمد ہو چکے شاید اگلے ماہ تنخواہوں کی ادائیگی بھی ممکن نہ ہو ایسے میں ظاہر ہے کہ”بول“ کی نشریات کا آغاز یکم رمضان سے کیسے ہو گا جبکہ اب تو وزارت اطلاعات نے پیمرا کو باقاعدہ ہدایات بھی جاری کر دی ہیں کہ اسکی ”روک تھام“ کی جائے مگر سمیر غضنفر بضد تھا کہ ”کچھ نہیں ہو گا“۔ سمیر میرا بے تکلف اور پرانا دوست ہے، وہ ایک بڑی لاء فرم سے وابستہ ہے، اسکی ذہانت کے اعتراف کے طور پر میں اسے ”مائی لارڈ“کہہ کر مخاطب کیا کرتا ہو ں۔ آج اس سے ملاقات کسی دوست کو قانونی معاونت دلانے کے سلسلے میں ہوئی تھی اور مشاورت مکمل ہو نے کے بعد گرم جھاگ دار کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے اچانک گفتگو کا موضوع ایگزیکٹ کا قضیہ بن گیا۔میری دلچسپی اور حیرانی دیکھتے ہوئے اس نے ایف آئی اے کے مقدمہ نمبر 7/ 2015کا قانونی پوسٹ ماٹم شروع کیا۔
”یہ مقدمہ سرکاری مدعیت میں درج کیا گیا، ا س میں لگائی گئی تعزیرات ِپاکستان کی پہلی دو دفعات 420اور468 دونوں کا تعلق دھوکہ دہی اور جعلسازی کے جرم سے ہے اور ان دونوں کے بیک وقت استعمال سے سزا دوبار نہیں بلکہ مشترکہ ہی دی جا سکتی ہے جو کہ کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال تک ہو سکتی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ملزم کے خلاف دھوکہ دہی یا جعلسازی کی 2006سے آج تک کوئی شکایت ایس ای سی پی، نیب، ایف آئی اے یا کسی محتسب کے پاس بھی درج نہیں، ریاست کیسے ثابت کر گی کہ ملزم نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے، شکایت کنندگان کون ہیں۔۔ فریادی کہاں ہے؟
اب سمیر کی آواز بلند ہو نا شروع ہوئی، اس کے لہجے میں ظنز عود کر آیا۔”اس مقدمے کی دوسری دفعات 473،472،471اور474 کا تعلق بھی اسی نوعیت کے الزامات سے ہیں جن میں حسابات یا کھاتوں میں گڑبڑ، گوشواروں کی ہیر پھیر کی گئی ہو“۔ وہ بے تکان بولے جا رہا تھا۔”ہر پرائیوٹ لمیٹڈ فرم اپنے مقررہ چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ سے اندرونی حسابات کا تصدیق شدہ بہی کھاتہ ایس ای سی پی کو جمع کرانے کی پابند ہو تی ہے اور اسے بوقت ضرورت جانچا جا سکتا ہے مگر یہ ایف آئی اے کا کام نہیں“۔ سمیر نے اضافہ کیا۔”ایف آئی آر میں شامل دفعہ 477Aکے تحت کسی کی جعلی مہریں بنانا، اشاعتی پلیٹس تیار کرنا، ایسے مواد کو اپنے قبضے یں رکھنا اور بدنیتی سے استعمال کرنا وغیرہ جیسے جرائم کا ٹرائل کیا جاتا ہے مگر سوال پھر وہی ہے۔ متاثرہ شخص، ادارہ یا کمپنی کون ہے اورکہاں ہے فریادی، شکایت کس نے کی کہ اسکی جعلی مہریں تیار کی گئی ہیں“۔ اب گفتگو نہایت دلچسپ ہو چکی تھی۔”مقدمے میں شامل الیکڑانک ٹرانزیکشنز ایکٹ کی دفعات 36اور37 کے تحت قانونی جواز اور اختیار کے بغیر کسی کے کمپیوٹر سے مواد ہتھیا لینا، چوری کرنا یا اسکے ڈیٹا کو نقصان پہنچانا وغیرہ جیسے جرائم کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے۔ سوال پھر وہی ہے، ایگزیکٹ نے یہ جرم کس کے ساتھ کیا۔ اس مرتبہ سمیر اور میری آواز گڈمڈ ہو گئی، ہم نے ایک ساتھ ہی دھرایا۔ ”کہاں ہے فریادی؟“۔”مقدمے کی آخری دفعات اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی سیکشن 3اور4ہیں لیکن ان دفعات کی تشریح سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی بھی فرد یا ادارے کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ قائم کرنے سے پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے باقاعدہ اجازت لینا ضروری ہے یہ ایک ”پری ریکوزٹ“ ہے ورنہ مقدمہ خارج کردیا جاتا ہے۔ لیکن انہوں نے مقدمہ جلدی میں رات کے دو بجے قائم کیا شاید ”کسی“ کو شعیب شیخ کو گرفتار کرنے کی بہت جلدی تھی“۔سمیر نے دلائل سمیٹ ڈالے۔
یہ سارے دلائل سننے کے بعد ایک لمبی”ہوں“ میرے منہ سے بے اختیار ادا ہو ئی یکایک مجھے یاد آیا، کمزور سے لہجے میں یہ استفسار میرا آخری نکتہ تھا کہ ”اب تو ایگزیکٹ کے دفتر سے ہزاروں جعلی ڈگریاں بر آمد ہو چکی ہیں کم از کم اخلاقی طور پر تو شعیب شیخ کے پاس اپنے دفاع کا کوئی گراؤنڈ نہیں“۔میں نے پوچھا۔ سمیر نے سامنے رکھا لیپ ٹاپ بند کیا، آنکھوں سے چشمہ اتارا، ٹیبل پر رکھے کاغذات سمیٹنا شروع کئے اور قطعی لہجے میں کہا”شاہ جی میں وکیل ہو ں میرا تعلق قانونی نکات تک ہے، اخلاقیات کا میں ٹھیکیدار نہیں مگر آپ کو پھر بھی واضح کردوں کہ جعلی ڈگری کی تعریف یہ ہے کہ کسی کالج یا یونیورسٹی کی ڈگری کی نقل گھر میں تیار کر لی جائے اور اس پر کسی کا نام لکھ کر جعلی مہر لگا دی جائے جبکہ یونیورسٹی کے ریکارڈ میں اس طالب علم کا کوئی وجود نہ ہو۔ہر آن لائن یونیورسٹی کیجاری کردہ ڈگری جعلی نہیں ہوتی اور یورپ، امریکہ سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں ”ورچوئل یونیورسٹیز“ کا وجود ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے البتہ انکی ڈگری پر لکھا ہو تا ہے کہ یہ آن لائن ایجوکیشن پروگرام کے تحت جاری کی گئی ہے اس طرح کے پروگرامز میں آن لائن ٹیوٹوریلز بھی دئیے جاتے ہیں“۔ یہ کہہ کر اس نے میری طرف مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھایا گویا یہ اشارہ تھا کہ ”ملاقات تمام کی جائے“ میں اٹھا اور ”تھینک یو مائی لارڈ“ کہہ کر اس کے دفتر سے نکل آیا مگر میرے دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں۔
”شعیب شیخ کا ایک اور جھوٹ پکڑا گیا۔ تما م ملزمان کو کم از کم 49،49برس کی سزا ہو گی۔ یہ صدی کا سب سے بڑا اسکینڈل ہے وغیرہ وغیرہ“۔ ٹی وی اسکرینز آنکھوں کے سامنے گھوم گئیں۔ کیچ لائنز اور بریکنگ نیوز کے پنچز ایان علی کی طرح دماغ کے ریمپ پر ٹھمک ٹھمک کر کیٹ واک کرنے لگے یوں لگا جیسے شعیب شیخ اپنی ہتھکڑیاں ہو ا میں لہرا لہرا کر”پاک سر زمین شاد باد“ گنگنارہا ہو، پاس کھڑی ایان علی بھی چشمِ تخّیل کے احاطہ بینائی میں چلی آئی، ہاتھ کی پشت سے منہ کا دھانا ڈھکے اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ”مائی لارڈ“ ٹھیک ہی کہتا تھا اخلاقیات بالائے طاق رکھ کر بات کی جائے تو بہتر ہے ویسے بھی کیسی اخلاقیات اس معاشرے میں جہاں سال بھر کی تفتیش کے بعد پتہ چلا ہے کہ ماڈل ٹاؤن میں سترہ بے گناہ افراد پولیس کی گولیوں سے نہیں ”بہ رضائے الہٰی“ انتقال کرگئے تھے۔ شعیب شیخ نے ذرائع ابلاغ کے فرعونوں کو چیلنج کیا یہی اسکا اصل جرم ہے اب یہ سارے فرعون اس کے خلاف متحد ہیں اور رسی کو سانپ ثابت کرنے پر تلے ہیں۔اپنے متوقع ”ہیوی ویٹ“حریف کے خلاف دو میڈیا گروپس”تومن شدی من تو شدم“ کی عملی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور انکے اسٹار اینکرز، رپورٹرز، کالم نگار ”وغیرہ وغیرہ“بول سے وابستہ صحافیوں کے کپڑے تک نوچ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، کامران خان اور طلعت حسین کے مابین آن ائر ہونے والی گفتگو جذبہئ حسداوررقابت کا اعلیٰ نمونہ ہے جبکہ ایکسپریس ٹی وی سے نشر کیا جانے والا کارٹون ایسے ہی جذبات کا اظہار میں ”لُچر پن“ پر اتر آنے کا ثبوت ہے جس میں بول ٹی وی سے مستعفی ہو نے والے اہم عہدوں پر تعینات چند افراد کو چوہوں سے تشبیہ دیتے ہو ئے دکھایا گیا کہ بول ایک ڈوبتا ہوا جہاز ہے اور چوھے جہاز کے ڈوبنے سے پہلے ہی جان بچانے کیلئے سمندر میں چھلانگیں ماررہے ہیں۔ دو بڑے میڈیا گروپس کی کیفیت کو شاعر نے خوب الفاظ میں جامہ پہنایا ہے۔
عظمتیں اپنے چراغوں کی بچانے کیلئے
ہم اُجالا کسی گھر میں ہونے نہیں دیتے
عبید شاہ
السلام علیکم
گزشتہ دنوں خبر تھی کہ عامر لیقت کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی جعلی ہے اس پر کوئی تبصرہ نہیں اور جیو پر تو اسکا نام ڈاکٹر عامر لیاقت علی لیا جارہا ہے اسکی متعلق آپ کا کیا ردعمل ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟شکریہ
Hum wahan han jahan say hum ko bhi kuch humari khabar nahi aati Aagay aati thi hall e dil pa hansi Ab kisi baat per nahi aati