بے نظیرکے زیوارات کا قصہ،سوئس عدالت کے فیصلے سے نوازشریف کیوں پریشان ہیں؟
سوئس عدالت کی طرف سے ایک لاکھ 80 ہزار ڈالرز مالیت کے ایک نیکلس، بریسلیٹ اور انگوٹھی کو ضبط کرنے کا حکم ، پاکستانی حکومت یہ لوٹی ہوہوئی دولت واپس لا سکتی ہے لیکن اسے پیپلز پارٹی کی ناراضگی کا سامنا کرنا پرے گا
غیرملکی بینکوں میں جمع ملکی اثاثوں کو واپس لانا نواز شریف حکومت کے ایجنڈے کا حصہ ہے اور ھکومت کی طرف سے وقفے وقفے اس کا اظہار بھی ہوتا رہا ہے تاہم اب بے نظیر بھٹو کے زیورات سے متعلق سوائس عدالت کے حکومت پاکستان کے حق میں آنے والے حالیہ فیصلے کے وقت نے وزیراعظم نواز شریف کو کافی پریشان پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔
اب کہنے کو تو اس میں کم از کم نواز شریف کے لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں کہ بے نظیر بھٹو نے سونے کے کچھ انتہائی قیمتی زیورات خریدے اور انہیں سوئس لاکرز میں رکھوا دیا ۔ لیکن اس میں سب سے زیادہ پریشانی نواز شریف کو ہی ہے کیونکہ اگر وہ سوئس عدالت کے فیصلے ہر عمل کرتے ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ مستقبل قریب میں انہیں اپنی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت سے محروم ہونا پڑے۔
یہ مقدمہ اکتوبر 1997 میں اس وقت کے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بے نظیر بھٹو، ان کی والدہ نصرت بھٹو اور شوہر آصف علی زرداری کے خلاف دائر کیا تھا۔یہ زیورات ان اشیاء میں شامل ہیں جنھیں 1997 میں ضبط کیا گیا تھا تاہم این آر اور کے اجراء کے بعد 2008 میں اصل مقدمات بند ہوگئے تھے تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے خط کے بعد انہیں دوبارہ کھولا گیا۔
سوئٹزرلینڈ میں ضبط زیورات سے متعلق فیصلہ حکومت پاکستان کو مل گیا ہے ، سوئس عدالت نے زیورات کو سابق صدر آصف زرداری کی ملکیت قرار دیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے سوئس عدالت کا فیصلہ لیگل فرم کے ذریعے موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ سوئس زبان میں ہے جسے وزارت قانون کو بھجوا دیا گیا ہے اور اسی نے اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ مذکورہ زیورات ایس جی ایس کوٹیکنا ریفرنس کی تحقیقات کے دوران ضبط کئے گئے۔
سوئس فیڈرل ٹربیونل نے کیا فیصلہ سنایا؟
ایک سوئس فیڈرل ٹربیونل نے نومبر2014ء کے تیسرے ہفتے میں فیصلہ سنایا تھا کہ سابق صدر آصف علی زرداری یا بے نظیر بھٹو کے قانونی وارثوں کی ملکیت سمجھے جانے والے قیمتی زیورات، جن پر سیاسی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر حاصل کرنے کے مبینہ الزامات سامنے آئے تھے، کو ضبط کرلیا جائے۔
یہ زیورات ایک نیکلس، ایک بریسلیٹ، انگوٹھی اور دیگر پر مشتمل ہیں جن کی مالیت ایک لاکھ 80 ہزار ڈالرز ہے۔
عدالت کی جانب سے 29 اکتوبر کو جاری ہونے والے فیصلے میں ٹربیونل نے بومر فنانس کی جانب سے زیورات کی ملکیت کے دعوے کو مسترد کردیا ہے، یہ کمپنی مبینہ طور پر جینز شکیلی گیلمیلچ نے تشکیل دی تھی اور ان کا تعلق آصف علی زرداری سے تھا، اور ان کے خلاف ایس جی ایس کونیٹکنا تحقیقات بھی جاری ہے۔
سوئس ٹربیونل میں حکومت پاکستان کی نمائندگی کرنے والی قانونی فرم پیتھون اینڈ پیٹر وکیل فرانکوئس روجر مچلی کے مطابق فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جینز شکیلی گیلمیلچ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے اٹارنی کے طور پر پیش ہوئے۔
حکومتی موقف درست ثابت ہونے اور جنیوا کی کورٹ آف اپیل کے ایک حالیہ فیصلے کو دیکھتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ سوئس قانونی فرم نے حکومت پاکستان کو اس فیصلے سے آگاہ کردیا ہے کہ بومر فنانس اب خود کو ان زیورات کا قانونی مالک قرار نہیں دے سکتی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ جینز شکیلی گیلمیلچ یہ بات ثابت نہیں کرسکے کہ انہوں نے بومر فنانس کے ایک بوڈ رکن کی حیثیت سے ان زیورات کو خریدا تھا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ حکومت ٹربیونل کے فیصلے کی اطلاع باضابطہ ذرائع سے ملنے کے بعد اس معاملے میں اقدام کا تعین کرے گی، مگر دوسری جانب فیصلے کی ایک نقل پہلے ہی اسلام آباد ارسال کی جاچکی ہے۔
اس کیس کی پیشرفت سے واقف سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل کے دفتر کو فیصلے کی غیرسرکاری نقل موصول ہوچکی ہے۔
حکومت کو اب مشکل سیاسی انتخاب کا سامنا ہے، عوامی سطح پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار وعدہ کرچکے ہیں کہ غیرملکی بینکوں میں موجود ملکی اثاثوں کو واپس لایا جائے گا اور یہ مقدمہ اس کا موقع فراہم کرتا ہے۔
فرحت اللہ بابر کیا کہتے ہیں؟
فرحت اللہ بابر جوبینظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ترجمان رہ چکے ہیں نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ زیورات کبھی بھی شہید بینظیر بھٹو کی ملکیت نہیں رہے ، اس لئے اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ زیورات بینظیر بھٹو یا آصف علی زرداری کے قانونی وارثوں کی ملکیت ہو سکتے ہیں، کسی کواس بات پر کوئی شک یا غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔ 19ستمبر 2005ء کوبینظیر بھٹو سوئس تحقیقاتی مجسٹریٹ کے سامنے جنیوا میں خود پیش ہوئی تھیں اور ان زیورات کی خریداری سے انکار کیا تھا۔ جس دکان سے یہ زیورات خریدے گئے تھے، اس کے مالک نے بھی یہ بیان سوئس مجسٹریٹ کے سامنے دیا تھا کہ وہ بینظیر بھٹو کو نہیں جانتا اور نہ اس نے بینظیر بھٹو کو یہ زیورات فروخت کئے۔ اس وقت نیب کا دعویٰ تھا کہ یہ زیورات بینظیر بھٹو کے سیف سے قبضے میں لئے گئے تھے جبکہ یہ بات مجسٹریٹ کے سامنے ثابت ہوگئی کہ محترمہ کا جنیوا میں کوئی سیف موجود ہی نہیں اور یہ زیورات جنیوا میں جوہری سے حاصل کئے گئے تھے۔ اس بات کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ جنز شلیگل میلچ بینظیر بھٹو کا ایجنٹ تھا لیکن جنز شلیگل میلچ نے خود اپنے بیان میں اس بات کوغلط ثابت کر دیا تھا۔
حکومت کیوں مشکل میں ہے؟
نواز شریف کی حکومت اس بات کا کئی بار اعادہ کر چکی ہے کہ غیر ملکی بینکوں میں موجود ملکی اثاثوں کو واپس پاکستان لایا جائے گا اور اس ضمن میں حکومت پاکستان اور سوئس حکومت کے مابین ایک معاہدے پر بھی دستخط ہو چکے ہیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہت کہ کیا حکومت کر سکے گی؟ ایسا کرنے کی صورت میں جہاں ایک طرف اسے پیپلز پارٹی کی ناراضگی کا خطرہ مول لینا ہو گا وہاں اپنے اہم اتحادی سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں ۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ نواز حکومت تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ہاتھوں درپیش مشکلات کے باعث پیپلزپارٹی کو بھی مخالف بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ اس وقت پیپلز پارٹی کی حمایت کی ضرورت ہے۔
نواز حکومت کے لئے اس ٹیسٹ کیس سے پتہ چل جائے گی کہ حکومت غیر ملکی اثاثوں کو واپس لانے کے ضمن میں کتنی سنجیدہ ہے۔ قانونی طور پر دیکھا جائے تو یہ حکومت کے لیے بیرون ملک موجود اثاثوں کی ریکوری کے لیے ایک مضبوط کیس ہے۔