سابق وفاقی وزیرشہباز بھٹی کے قتل کا معمہ مزید الجھ گیا
پولیس نے ڈرائیور کو مشکوک قرار دے دیا، مقتول کے زمینوں پر قبضے کے تنازعات چل رہے تھے، ایک ذاتی دشمن حال ہی میں جیل سے رہا ہوا ، ذرائع کا دعویٰ شہباز بھٹی نے ایک نرس سے شادی کا وعدہ کیا تھا مگراسے پورا نہیں کر سکا، دونوں کے درمیان تنازعہ چل رہا تھا ،قتل کے وقت نرس گھر میں موجود تھی
سیف اللہ
2 مارچ کو اسلام آباد کے سیکٹر 1/8 میں اپنی والدہ کے گھر کے باہر قتل ہونے والے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کے قتل کا معملہ حل نہیں ہو سکا، مگر تفتیش کا عمل ضرور آگے بڑھا ہے۔کیس کی تفیتیش کا ایک مرحلہ مکمل ہو چکا ہے تا ہم ابھی تک قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکا۔ تمام گرفتار 60 افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ تحقیقات کے نتیجے میں طالبان اور دیگر مذہبی گروپس شک کے دائرے سے نکل گئے ہیں جب کہ اصل قاتلوں تک پہنچنے میں مسیحی برادری رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
تفتیش کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے ذرائع نے بتایا ہے کہ اب تک پولیس کو اس قتل کے ملزمان کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ البتہ ایک بات صاف ہو گئی ہے کہ اس قتل میں تحریک طالبان یا کوئی دوسرا مذہبی گروپ ملوث نہیں ہے ۔ تفتیشی عمل میں قربت رکھنے والے ایک ذریعہ کا کہنا ہے کہ پولیس کو شبہ تھا کہ سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی یا تحریک طالبان کے کسی گروپ نے وفاقی وزیر کو قانون انسداد توہین رسالت پر ان کے موقف کے سبب قتل کیا ہے مگر تمام دستیاب ذرائع سے تفتیش کے بعد تفتیشی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس قتل میں کوئی دینی گروہ ملوث نہیں۔ اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ ایک تو ابھی تک اس حوالے سے کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہوا۔ نہ ہی ٹیلی فون ریکارڈ یا کسی دوسرے ٹیکنیکل طریقے سے کوئی شہادت ملی ہے جس کی بنا پر تفتیشی ٹیم شہباز بھٹی کے قریبی لوگوں اور مسیحی برادری کے کچھ افراد سے تفتیش کرنا چاہتی ہے مگر جب اس سلسلے میں کوشش کی جاتی ہے تو پولیس پر اقلیتوں کے حقوق پامال کرنے کا الزام لگ جاتا ہے یہی سبب ہے کہ پولیس نے باقاعدہ رابطے کر کے مقتول کے کے بھائی اور دیگر کئی مسیحی رہنماؤں سے درخواست کی ہے کہ وہ سابق وفاقی وزیر کے قتل کے مقدمے میں پولیس کی مدد کریں تا کہ اصل مجرم پکڑا جا سکے مگر تا حال مسیحی برادری گرفتاری میں رکاوٹ ہے۔ پولیس نے شیر گل کو عینی شاہدین کے آمنے سامنے بٹھایا مگر فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم رہے۔ شیر گل پولیس کو اس بات کا جواب نہ دے سکا کہ فائرنگ کے دوران ونڈو اسکرین پوری طرح تباہ ہو گئی۔ اگر وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کو نہ کوئی شیشہ لگا نہ گولی۔ اسے خراش تک نہ آئی۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے کرائم سین کو دہرایا جس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اگر ڈرائیور گاڑی میں تھا تو اسے ضرور زخمی ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ ڈرائیور کا کہنا ہے کہ ملزم نقاب کے بغیر تھے وہ انہیں شناخت کر سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ملزم کھلے چہرے سے آئے تھے انہوں نے ڈرائیور کی شکل میں اپنی شناخت کو زندہ کیوں چھوڑ دیا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ڈرائیور شیر گل کو پولیس تحویل میں لے لیا جائے تو بہت سے سوالوں کا جواب مل سکتا ہے۔ سابق وفاقی وزیر کے قتل کے سلسلے میں شک کے دائرے میں اسلام آباد کی ایک نرس کا نام بھی آتا ہے جس کے پولیس کے مطابق شہباز کے ساتھ 1995 ء سے تعلقات تھے، تا ہم ان دنوں ان دونوں کے درمیان تنازعات چل رہے تھا کہ شہباز بھٹی نے اس سے شادی کا وعدہ کیا تھا مگر بعد میں اسے پورا نہیں کر سکا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شہباز بھٹی کے قتل کے وقت وہ نرس ان کے گھر پر موجود تھی۔ اور بھٹی نے وہاں اس سے ملاقات بھی کی تھی۔ مگر مسیحی برادری اس نرس سے تفتیش میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
دریں اثناء ملک بھر میں شہباز بھٹی کے کئی جگہوں پر پراپرٹی کے تنازعات بھی تھے جن میں دو سب سے زیادہ اہمیت کے حامل خیال کیے جاتے ہیں۔ ایک یہاں اسلام آباد میں چک شہزاد کے قریب مسحی کالونی کے خاطر قبضے میں لیا گیا 20 ایکڑ رقبضہ ہے جس پر زمین کے مالک کے الزام کے مطابق سابق وفاقی وزیر نے قبضہ کیا ہے اور وہ یہاں ملک بھر سے مسحیوں کو لا کر آباد کرنا چاہتا تھا۔ اس معاملے پر کئی بارجھگڑا بھی ہوا اسی طرح ایک بہت بڑا تنازع لاہور میں بھی سامنے آیا جہاں وفاقی وزیر نے لاہور کے سب سے مہنگے علاقے میں F-C کالج کے قریب ایک مہنگے اور بڑے پلاٹ پر قبضہ کر رکھا ہے۔اس پر تنازعہ چل رہا ہے اس طرح چند اور بھی پراپرٹی کے تنازعات ہیں جہاں پر موصوف نے قبضہ کر رکھا تھا۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ زیادہ تر قبضے والی جگہیں ایسی ہیں جہاں وہ مسیحیوں کو کالونیوں کی شکل میں بسانا چاہتے تھے اور ان پر یہ الزام بھی تھا کہ قبضے کی اس جگہ پر مسیحیوں کی آباد کاری کے لئے وہ بعض عالمی این جی اوز سے بھی رابطے میں تھے اور وہاں رہنے والے مسیحیوں سے بھی رقوم وصول کرتے تھے۔
پولیس کے مطابق زمین اور نرس کے علاوہ بھی شہباز بھٹی کی دشمنیاں تھیں۔ ان کا ایک ذاتی دشمن جس کا نام Heetor بتایا جاتا ہے، شہباز بھٹی کے سبب وہ کئی بار جیل گیا اور اس قتل سے چند روز پہلے ہی وہ جیل سے رہا ہو کر آیا تھا مگر مصیبت یہ ہے کہ وہ بھی مسیحی ہے اور اس سے تفتیش پر بھی اقلیتوں سے ظلم والا ڈرامہ شروع ہو سکتا ہے جس کی دھمکیاں پولیس کو مل رہی ہیں۔پولیس نے ان حالات کے حوالے سے بعض مسیحی رہنماؤں اور مقتول کے بھائی سکندر بھٹی سے بھی رابطہ کیا ہے اس کے نتیجے میں ایک مسیحی رہنما نائلہ جے دیال نے ایک پریس کانفرنس کر کے یہ کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی مسلمان کسی مسیحی خصوصاً شہباز بھٹی کو قتل نہیں کر سکتا۔ یہ قتل پاکستان کو عدم استحکام کرنے کی ایک سازش ہے، اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ تفتیش سے پہلے کسی تنظیم یا طبقے پر الزام تراشی کر دے۔
ایک طرف یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف بعض مسحی رہنما اس قتل کو کیش کروانے کی خاطر عالمی مہم جوئی پر نکلے ہوئے ہیں جن میں سر فہرست ملتان ڈائسسز کے پادر ی ہیں جواس وقت ویٹی کن میں موجود ہیں۔ انہوں نے وہاں پوپ سے ملاقات کی ہے اور ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے انتہائی بری صورت حال پیش کی، جس پر پوپ نے کہا کہ انتظار کریں حالات بدلنے والے ہیں۔ تا ہم پاکستانیوں کے اس وفد نے روم میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر مظاہرے کے کسی بھی پروگرام میں شریک ہونے سے انکار کر دیا اور کہا ہے کہ اس طرح یہ معاملہ سیاسی ہو جائے گا۔