مشاہد اللہ کا فوج کیخلاف بیان،بے شمارسوالات پیدا
وزیراعظم محمد نوازشریف کی قیادت میں قائم حکومت نے وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان کے دھماکہ خیز انٹرویو پر ان سے فوری استعفیٰ لینے سے بے چینی کی کیفیت میں کچھ کمی ضرور ہوئی، تاہم بے شمار سوالات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ مستعفی وزیر موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان نے یہ بیان کیسے دیدیا، اس پر انکے دوست حیران ہیں۔ مشاہد اللہ خان ذہین سیاستدان سمجھے جاتے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے ان رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے 1999ء میں نوازشریف حکومت کے خاتمے کے بعد کراچی کی سڑکوں پر احتجاج کیا تھا اور مشرف حکومت کے دور میں ثابت قدم رہے تھے۔ انکی میاں محمد نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) سے وابستگی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ سیاسی حلقے یہ کہتے ہیں کہ مشاہد اللہ خان کا بیان تو خواجہ محمد آصف کے بیانات کے تسلسل میں نظر آتا ہے، تاہم انکے بیان پر ردعمل شدید تر ہوا۔ حکومت کے پاس مشاہد اللہ خان سے استعفیٰ طلب کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سنیٹر پرویز رشید کے پاس بھی اسکے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ مشاہد اللہ خان کے بیان کی پُرزور تردید کریں کیونکہ اگر حکومت خواجہ آصف کے متعدد بیانات کی طرح جس میں کچھ ڈھکے چھپے انداز میں بات کی گئی تھی اس بار سخت ردعمل ظاہر نہ کرتی تو حکومت کو مزید آگے بڑھ کر تحقیقاتی کمشن بنانے اور آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنے کے مطالبات سامنے آنے کے باعث شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا۔ مشاہد اللہ خان کے بیان پر تحریک انصاف نے پہلے ہی مطالبہ کرنا شروع کردیا ہے کہ تحقیقاتی کمشن قائم کیا جائے۔ ایم کیو ایم کے استعفوں کا بحران پہلے سے موجود ہے۔ عوامی زندگی میں بے یقینی کی کیفیت 14 اگست کو جب قوم یوم آزادی منا رہی تھی۔ منجھے ہوئے سیاستدان کی طرف سے پہلے سے چلنے والی باتوں اور سُلگتی آگ پر تیل ڈالنے کا معاملہ پنڈورا بکس کھلنے کا پیش خیمہ بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔
اسلام آباد/رپورٹ: عترت جعفری