اسحاق ڈار 60کمیٹیوں کے سربراہ، لیگی راہنما مایوس
ممبئی حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمن لکھوی کو جب اس ماہ کے اوائل میں ضمانت پر رہائی ملی تو مغربی ممالک کے سفارتکاروں نے اس پر مایوسی کا اظہار کرنے کے لئے دو اعلیٰ رہنماؤں سے رابطہ کیا۔ ایک کال تو مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو کی گئی اور دوسری وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو کی گئی تھی تو اسحاق ڈار کو اس کال کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی لیکن اگر دیکھا جائے تو وہ حکومت کی اقتدار سمیت ہر قسم کی سرگرمیوں میں سرگرم نظر آتے ہیں وہ مسلم لیگ ن کی مشکلات دور کرنے میں بھی پیش پیش ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے جب بھی کوئی کمیٹی بنائی ہے چاہے یہ خزانے سے متعلقہ ہو یا سیاست سے اسحاق ڈار پہلا انتخاب ہوتے ہیں جن کی سربراہی میں کمیٹی بنتی ہے۔ پارلیمنٹ کے باہر دھرنے کے وقت بھی عمران خان اور ان کے ساتھیوں سے مذاکرات میں اسحاق ڈار شریک رہے ہیں۔ 16دسمبر کے پشاور سکول پر حملے کے بعد بھی اسحاق ڈار سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے مذاکرات میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس وقت وہ 60کمیٹیوں کی سربراہی کر رہے ہیں جن میں متعدد بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ انہوں نے ایل این جی کی درآمد، 3/Gاور 4/Cکی نیلامی کے حوالے سے معاملات کی نگرانی بھی کی ہے۔ ڈالر کو 100روپے سے نیچے لائے، ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار کی ان مصروفیات کے باعث حالیہ حالات میں چودھری نثار کی نسبت اہمیت بڑھی ہے۔ ایک سینئر سیاستدان کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار وزیراعظم کا چہرہ ہیں، وہ ڈپٹی وزیراعظم لگتے ہیں۔ ایک مسلم لیگی رہنما کے بقول اسحاق ڈار اکاموڈیٹ کرنے والے اور لچکدار رویہ کے مالک ہیں یہی وجہ ہے کہ چودھری نثار اور راجہ ظفر الحق جیسے رہنما پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ اپوزیشن رہنما بھی ان سے مذاکرات سے نہیں شرماتے۔
پارٹی کے بعض ارکان نے اسحاق ڈار کے دوسرے محکموں اور وزارتوں کے امور میں مداخلت پر مایوسی بھی ظاہر کی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سابق چیئرمین انور بیگ کو وزیر خزانہ کے ساتھ اختلافات کے باعث سائیڈ لائن کیا گیا۔ وزارت خزانہ پر اسحاق ڈار کا کنٹرول مضبوط ہے، بہت سے منصوبے ان کی منظوری سے آگے بڑھتے ہیں۔