پاکستان میں انتہا پسندی کے باوجود خفیہ ڈانس پارٹیوں میں اضافہ،چھھ ہزار فیس، ایس ایم ایس پر مہم
وسیم شیخ
ایک طرف پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے تو دوسری طرف اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ویک اینڈ پر خفیہ ڈانس پارٹیاں معمول ہیں۔ ان پارٹیوں میں شارٹ اسکرٹس میں ملبوس خواتین اور جیلی کی مدد سے بنائے گئے ہیئر اسٹائل والے مردوں کو ڈانس فلور پر تھرکتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان پارٹیوں میں شراب ممنوع ہونے کے باوجود وہاں شراب اور منشیات کا استعمال بھی عام ہوتا ہے جبکہ لاؤنجز میں بیٹھے جوڑے ایک دوسرے کو بانہوں میں لیتے اور بوس و کنار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان پارٹیوں کے منتظمین اوسطا60 ڈالر کے مساوی داخلہ فیس لیتے ہیں جو بہت سے پاکستانیوں کی ماہانہ آمدنی کے برابر ہے۔ان معا ملات سے باخبر کچھ اہم ذرائع نے ’’ فیکٹ ‘‘ کو بتایا کہ خفیہ پارٹیوں کا اہتمام فارم ہاؤسز میں کیا جاتا ہے۔ان پارٹیوں میں قریبی جان پہچان والے لوگوں کو ہی مدعو کیا جا تا ہے ۔ اس قسم کی پارٹیاں کرانے والے بعض پروفیشنل حضرات ایس ایم ایس کمپین بھی چلا رہے ہیں جن میں صرف فی میل فرینڈ لانے والوں کو ہی شرکت کی دعوت دی جا تی ہے ۔ چھوٹے قد اور لمبے بالوں والی رافعہ بھی ایسی پارٹیوں میں جاتی ہیں۔ وہ اس بات پر خفا ہوتی ہے کہ بعض خواتین خفیہ موبائل فون رکھتی ہیں، جن پر ان کے والدین کی نظر نہ ہو۔ رافعہ کو اس بات کا بھی گلہ ہے کہ بعض خواتین قدامت پسند لباس کے نیچے جسم کی نمائش کرنے والے کپڑے بھی پہنتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’یا تو آپ خوفِ خدا رکھ سکتے ہیںیا پارٹی کر سکتے ہیں۔‘‘
رافعہ نے بتایا کہ پاکستان میں آج بھی مغرب زدہ امراء کا ایک بڑا طبقہ رہتا ہے، جن کا نجی رہن سہن بہت مختلف ہے۔ ان پارٹیوں میں اسی طبقے کی ایک اقلیت جاتی ہے۔ مجموعی طورپر پاکستان دبا ہوا معاشرہ نہیں ہے۔ وہاں خواتین آزادانہ ڈرائیونگ کر سکتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ غیر شادی شدہ مرد اور خواتین مل جل سکتے ہیں۔ اسلام آباد کے پارٹی سرکٹ سے چند گھنٹوں کی مسافت پر قبائلی علاقہ کے کچھ حصے طالبان شدت پسندوں کے زیر اثر ہیں۔ ان کے ایک سینئر کمانڈڑ کا کہنا ہے’’اکٹھے ناچنے والے مردوں اور عورتوں پر خدا کی لعنت ہے۔ ہمیں ج بھی اس طرح کی فحاشی کا مظاہرہ نظر آئے گا، ہم انہیں یقینی طور پر نشانہ بنائیں گے۔‘‘رافعہ سے جب اس خدشے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ طالبان ایسی پارٹیوں پر حملے نہیں کریں گے ۔ اس کی ایک وجہ تو ہماری پرائیویسی ہے ، ہماری پارٹیوں میں کوئی عام آدمی نہیں آ سکتا ، دوسرا ان مذہبی جنونیوں بھی وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں ۔ بس طریقہ کار کا فرق ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغرب میں پاکستان کو اکثر سخت گیر اسلام پسندوں اور برقعہ پوش خواتین کا مسلم معاشرہ خیال کیا جاتا ہے تاہم اس کا ایک پوشیدہ پہلو بھی ہے، جس پر نظر ڈالنے سے مشرق و مغرب کا فرق ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔