پولیس بحریہ کی بسوں پر ہونیوالے حملوں کا سراغ لگانے میں ناکام
سٹاف رپورٹ
کراچی میں مہران بیس پر ہونے والے حملے میں غیر ملکی دہشت گردوں کی شناخت کے بعد تفتیش کا عمل جاری ہے تاہم کوئی ایسے سراغ نہیں مل سکے جو تفتیش کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکیں ۔ دوسری طرف تفتیشی ٹیمیں کراچی میں پاک بحریہ کی بسوں پر بم حملے اور دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث گروہ کا سراغ لگانے میں بری طرح ناکام ہو گئی ہیں اور ماری پور، ڈیفنس بم دھماکوں کے بعد کارساز پر بھی دہشت گردوں نے پاک بحریہ کی جن کوسٹر بس کو نشانہ بنایاتھا ، ان کے بارے میں تفتیشی ٹیمیں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہیں ۔ ان دھماکوں کو کئی ماہ گزر چکے ہیں لیکن ا ن دھماکوں میں میں ملوث افراد کو گرفتار رنا تو دور کی بات تفتیشی ٹیمیں ابھی تک صرف اس بات کا شبہ کرنے کے قابل ہوئی ہیں کہ ان حملوں میں دہشت گرد تنظیم جند اللہ ملوث ہے۔ تفتیشی ٹیمیں گزشتہ 2 سالوں کے دوران کراچی میں ہونے والے بم دھماکوں اور دہشت گرد حملوں کو بھی سامنے رکھتے ہوئے تفتیش کر رہے ہیں اور ذرائع کا کہنا ہے کہ 2009 ء عاشورہ بم دھماکے کے بعد جنداللہ کے مبینہ دہشت گرد مرتضیٰ کو اس کے چار ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا تھا جس نے دوران تفتیش آئی ایس یو پویس کو اس طریقہ کار سے متعلق بتایا تھا جو طریقہ کار پاک بحریہ کی بسوں کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے، تا ہم جند اللہ کے مبینہ دہشت گرد مرتضی کے سٹی کورٹ سے فرار کے بعد کراچی میں مختلف اوقات میں اس نوعیت کے دھماکے ہوتے رہے ہیں جس میں رینجرز کی موبائل، پولیس موبائل، تھانوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ملیر سٹی میں زائرین کی بس پر حملہ، شارع فیصل بلوچ پل پر زائرین کی بس اور جناح اسپتال میں بم دھماکے بھی اس نوعیت اور طریقے کار تحت کئے گئے۔ پولیس کی تفتیشی ٹیموں میں شامل ایک افسر کے مطابق کراچی میں جند اللہ نامی دہشت گرد تنظیم کو القاعدہ رہنما حمزہ جوفی چلا رہا ہے جو تمام جدید ٹیکنالوجی اور دہشت گردوں کا طریقہ کار جنداللہ کے دہشت گردوں کو فراہم کرتا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں جنداللہ کا امیر شجاع عرف حیدر ہے جو مختلف روپ دھار کر سرگرم رہا ہے۔ شجاع عرف حیدر کراچی میں اپنے ساتھیوں کو مکمل ٹاسک دیتا ہے اور ساتھیوں کے بھی سامنے نہیںآتا۔ تفتیشی ٹیمیں شجاع عرف حیدر کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہیں جب کہ کراچی میں واقع متعدد دینی درس گاہوں سے شجاع نامی افراد کو تفتیشی ٹیموں نے حراست میں بھی رکھا ہے تا ہم کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک بحریہ بسوں پرحملوں کے لئے جو جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے وہ صرف جند اللہ نامی تنظیم کے پاس ہے۔تفتیشی ٹیموں اوربم ڈسپوزل اسکوارڈ سے حاصل کردہ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ حملے موبائل فون کنکٹنگ ڈیوائس کے ذریعے کئے گئے ہیں جس میں فون ملانے کے چند سیکنڈ بعد کال اٹینڈ ہوتی ہے اور بعد ازاں ایک مخصوص کوڈ نمبر ڈائل کیا جاتا ہے اور دھماکہ ہوتا ہے، کراچی میں اسی طریقہ کار کو استعمال میں کیا گیا ہے۔
hamari agencies aur police na kabhi kisi case ko trace kia ha? jawab nahee main he ho ga, to ab umeedaian kaisi
akbar