صدرکےبیڈروم تک رسائی ہے،کام کرادونگا،نجی ٹی وی کےمالک کادعویٰ
سٹاف رپورٹ
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جانب سے 35 کروڑ روپے کے جعلی اور بوگس بلوں کی قواعد وضوابط معطل کرکے فوری ادائیگی کرنے کااسیکنڈل ایک ارب روپے کے میگا اسیکنڈل میں بدل گیا جس میں ملک کی اہم شخصیات ، طاقتور بیورو کریٹس کے ڈانڈے ایوان صدر سے ملتے ہیں۔ وزارت اطلاعات کے ذرائع کے مطابق قواعد وضوابط معطل کرنے کے معاملے کا AGPR کی جانب سے نوٹس لینے کے بعد اشتہاری کمپنیوں کی جانب سے جعلی بلوں پر 35 کروڑ روپے کا اسیکنڈل نیا رخ اختیار کرگیا ہے،جو مجموعی طور پر 90 کروڑ روپے کا اسیکنڈل بن جائے گا۔ دہری ادائیگیوں کیلئے بلوں کی تیاری کے پیچھے ملک کی ایک بڑی اشتہاری کمپنی ہے جو گزشتہ 3برس سے جعلی بلوں کے ذریعے یہ رقم نکلوانے کی کوشش کررہی تھی۔ اس نے ساری رقم خود ہضم کرنے کے بجائے نہ صرف دیگر اشتہاری ایجنسیوں کو بھی شامل کیا بلکہ APNS کو بھی اس کھیل میں اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ حالانکہ اے پی این ایس کی قائم مقام سیکرٹری جنرل شمائلہ داؤد ماتری جعلی بلوں کے معاملے کو ختم کرنے کے لیے خط لکھ چکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ اشتہاری کمپنیوں کی جانب سے جعلی بل پیش کرنے پر پی آئی ڈی کے ایک سابق پی آئی او نے اعتراض بھی لگایا تھا مگر اس بااثر لابی نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ایک ایسے کزن تک رسائی حاصل کر لی جو وزیراعظم کے کافی قریب تصور کیے جاتے ہیں۔ اس طاقتور لابی نے وزیراعظم کے اس کزن کو مشترکہ طور پر کروڑوں روپے کی رشوت دے کر وزیراعظم سے اس پی آئی او کے خلاف سخت کارروائی کرائی جس کے باعث اسے پی آئی او کے عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا تاہم تجربہ کار ہونے کے باعث او ایس ڈی بنائے گئے اس پی آئی او نے بھی جاتے جاتے ان جعلی بلوں پر ایسے 13 سوالات اٹھائے جن کے بارے میں یہ ’’ اشتہاری لابی ‘‘ جواب نہ دے سکیں۔ ذرائع کے مطابق اس کے بعد اس معاملہ پراس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ کو بھی بھاری رشوت دینے کی بھی پیش کش کی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ اشتہاری لابی نے وزیراعظم کے اس کزن کو پھر بھاری رشوت دے کر وزیراعظم سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران قمر زمان کائرہ کو بھی بلایا گیا اور وزیراعظم نے انہیں ان بلوں پر دستخط کرنے کے لیے کہا مگر قمر زمان کائرہ نے وہاں پر بھی ان بلوں پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اشتہاری کمپنیوں کی لابی نے لاہورکے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کے مالک کو اس سارے معاملے میں شامل کیا اس سلسلے میں اسے بھی رشوت دی گئی۔ کیونکہ اس کی رسائی براہ راست ایوان صدر تک تھی۔ ٹی وی چینل کے مالک نے مذکورہ لابی سے وعدہ کیا کہ چونکہ ذاتی طور پر اس کی رسائی صدر کے بیڈ روم تک ہے اس لیے وہ ان کاکام کروا دے گا،جس پر ملک کی اس بڑی اشتہاری ایجنسی کے چیف ایگزیکٹو نے نجی ٹی وی چینل کے مالک سے وڈیو فوٹیج سروس کا معاہدہ بھی کر لیا۔واضح رہے کہ مذکورہ شخص نے حارث اسٹیل ملز اسکینڈل میں بھی 30کروڑ روپے کی رشوت لی تھی تاہم بعد میں جب اس کا ذکر سپریم کورٹ میں ہوا تو اس نے یہ رقم واپس کر دی تھی۔ ادھر دوسری جانب مذکورہ اشتہاری ایجنسی کے مالک نے اسلام آباد کے ایک اور بااثر صحافی کی خدمات حاصل کیں جس نے جعلی بلوں کی منظوری میں معاونت کیلئے اسلام آباد کے سیکٹر F۔6 مارگلہ روڈ پر ایک دفتر بھی بنایا گیا جہاں سے بظاہر وہ ایک نیوز ایجنسی کے لیے کام کرتے تھے۔اس نیوز ایجنسی کا مالک اشتہاری ایجنسی کا مالک ہے۔ دوسری جانب نجی ٹی وی کے مالک نے اشتہاری کمپنی کے مالک کو یقین دلایا کہ وفاقی کابینہ تبدیل ہو رہی ہے مجھے صدر مملکت تک ذاتی طور پر رسائی حاصل ہے میں ایسے شخص کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بنواؤں گا جس سے ہم پہلے معاہدہ کریں گے کہ وہ ہمارے ان بلوں پر کی منظوری دے گا۔ چنانچہ کابینہ کی تبدیلی کے بعد پہلے مرحلے میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو وزیر اطلاعات و نشریات بنایا گیا جنہوں نے 35 کروڑ روپے مالیت کے مطابق جعلی بلوں کی سمری وزیر اعظم کو بھج کر اشتہاری لابی کی شرط پوری کی جبکہ اس سے زائد مالیت کے بلوں کی سمری ابھی زیر کار ہے۔ذرائع کے مطابق اس سارے کھیل کا حصہ جہاں وزیر اطلاعات و نشریات ہیں وہاں سیکرٹری اطلاعات و نشریات تیمور عظمت بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں ان کا تقرر بھی اسی لابی کا نتیجہ ہے اور وہ بھی اس لابی کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق ایک اور بڑا سیکنڈل جو صدر اور وزیر اعظم کے نوٹس میں بھی آیا مگر حکومت نے بد نامی سے بچنے کیلئے اس پر پردہ ڈال دیا جبکہ اس اسیکنڈل کے تحت ایک سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات پی آئی ڈی کی خوبرو خاتون افسران کو ذاتی طور پر کھانوں پر بلا کر بل سرکاری کھاتوں میں ڈالتے رہے۔مذکورہ سیکرٹری کو لاہور کے ایک میڈیا گروپ نے سرکاری اشتہار لینے کیلئے لاہور آنے کی دعوت دی۔جسے انہوں نے بخوشی قبول کر لیا۔ذرائع کے مطابق سابق سیکرٹری اطلاعات و نشریات جب لاہور پہنچے تو انہیں ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھا گیا جہاں پر انہیں رات کے کھانے پر ایک خوبرو دوشیزہ بھی پیش کی گئی مذکورہ میڈیا گروپ کاخیال تھا کہ ہو سکتا ہے کہ دوشیزہ مذکورہ سیکرٹری اطلاعات و نشریات کو کمرے تک لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس لیے انہوں نے کمرے کے علاوہ کھانے کی میز کو بھی خفیہ وڈیو کیمرے کے ذریعے فوکس کر رکھا تھا تاہم مذکورہ سیکرٹری خاتون کو دیکھتے ہی لٹو ہو گے اور کھانے کے فوراً بعد کمرے میں چلے گئے جہاں پر ساری رات اس لڑکی کے ساتھ ہم بستری کرتے رہے اور اس کی ڈیڑھ گھنٹے کی وڈیو اسلام آباد کے بعض حلقوں کے پاس موجود بھی ہے۔دوسری جانب وزیر اعظم نے اس معاملے پر نوٹس لینے کے بجائے گزشتہ روز مذکورہ افسر کو گریڈ 22 میں ترقی دے دی۔