روزانہ 6 کروڑ نقصان، پی آئی اے کا خسارہ92ارب سے بڑھ گیا
دنیا میں ہے کوئی ایسا ادارہ
تین برسوں میں پی آئی اے کے مجموعی خسا رے میں 62
ارب روپے کا اضافہ ہوا جو ائیر لائن کی 55 سالہ تاریخ کے
مجموعی خسارے سے دوگنا ہے
فیول کی کم قیمتوں کے باعث دنیا کی کئی ایئر لائنو ں نے
اپنے مالی خسارے پر قابو پایا، پی آئی اے کا مالی خسارہ
زائد آپریشنل لاگت کی وجہ سے مزید بڑھ گیا
قومی ائیر لائن کا خسارہ 92 اربروپے سے بڑھ گیا۔ ادارے کو یومیہ تقریباً ساڑھے 6 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ گزشتہ 6 برس سے پی آئی اے مسلسل خسارے سے دو چار ہے لیکن اس دوران انتظامیہ اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے کام لیتی رہی ہے جس کے باعث آج تک اس ادارے کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ۔ سابقہ انتظامیہ نے کئی بار کہا تھا کہ ادارہ مالی مشکلات سے نکل آیا ہے لیکن یہ دعویٰ بھی ائیر لائن کی ویب سائٹ پر دی گئی سالانہ رپورٹ سے متصادم ہے۔ رپور ٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں پی آئی اے کے مجموعی خسا رے میں 62 ارب روپے کا اضافہ ہوا جو ائیر لائن کی 55 سالہ تاریخ کے مجموعی خسارے سے دوگنا ہے۔ خسارے کی بنیادی وجوہات میں ہزاروں کی تعداد میں ان ملازمین کی بحالی بھی شامل ہے جنہیں 1996 ء میں نواز شریف دور حکومت میں سیاسی بھرتیاں قرار دے کر فارغ کر دیا گیا تھا۔ ان ملازمین کو گزشتہ تین برس کے دوران نہ صرف بحال کیا گیا بلکہ انہیں 13 برس کے واجبات بھی ادا کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق پی آئی اے کے ایکسٹرنل اڈیٹرز کی بورڈ آف ڈائریکٹر کو دی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ائیر لائن کو 31 دسمبر 2010 ء کو ختم ہونے والی مالی سال میں 20 ارب 78 کروڑ روپے سے زائد کا خسارہ ہوا جس کے بعد مجموعی خسارہ 92 ارب 37 کروڑ روپے ہو گیا۔ رپورٹ کے مطابق پی آئی اے کا 101 روپے کا حصص کم از کم 95.1 روپے اور زیادہ سے زیادہ 2.4 روپے رہنے کے بعد 26.2 روپے پر بند ہوا۔ پی آئی اے کی نفع نقصان کی 30 سالہ کارکردگی سے یہ بات سامنے آئی کہ 2001 ء تک پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 11 ارب روپے تھا جس میں نئی انتظامیہ کے تین منافع بخش سال بھی شامل تھے۔ پی آئی کی مالی مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا جب اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے اپنے دوستوں طارق کرمانی اور ظفر اے خان جیسے کارپوریٹ سیکٹر کے ناکام لوگوں کو ائیر لائن کی بھاگ دوڑ حوالے کی جن کی ناتجربہ کاری کے سبب قومی ائیر لائن نہ صرف مالی بحران سے دو چار ہوئی بلکہ اس کی بین الاقوامی حیثیت بھی مشکوک ہو گئی اور پی آئی اے کویورپی یونین کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ طارق کرمانی نے نہ صرف ائیر لائن کو اربوں روپے دفاتر کی من پسند تزئین و آرائش پر خرچ کر ڈالے بلکہ غیر ضروری انتظامی اخراجات اور غیرمعمولی تنخوا اہوں پر کنٹریکٹ بھرتیوں کے ذریعے قومی ائیر لائن کے اربوں کے خسارے میں جھونک دیا۔ بعد ازاں سابق ایم ڈی کپیٹن ہارون اعجاز کے دور میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والے فیصلوں اور اقدامات نے پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 92 ارب سے اوپر پہنچا دیا۔ ائیر لائن ماہرین کا کہنا ہے کہ ایاٹا رجسٹرڈ فضائی کمپنیوں کے لیے 2010 ء کا سال بہترین تھا جب فیول کی کم قیمتوں کے باعث دنیا کی کئی ایئر لائنو ں نے اپنے مالی خسارے پر قابو پایا۔اس کے برعکس پی آئی اے کا مالی خسارہ زائد آپریشنل لاگت کی وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے۔ فیول کی موجودہ 100 ڈالر فی بیرل قیمت اور مئی 2011 ء میں یہ قیمت 124ڈالر تک پہنچنے کے امکان کے باعث پی آئی اے کی مالی صورت حال 2011 ء میں بھی بہتر ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق حکومت نے پی آئی اے کے مالی بحران سے نکالنے کے لیے مزید گارنٹی دینے کی منظوری تو دے دی ہے لیکن یہ گارنٹی بھی مجوزہ بزنس پلان سے مشروط ہے۔
dear pia ka bara gharaq kurna maian ppp ke hukumut brabur ke shreek hay. hum yahan kis kis edaray ka rona roian ga.
Usman Islamabad