اسامہ کے ساتھیوں کی تصویرکس انٹیلی جنس افسر نےفروخت کیں؟
انٹیلی جنس ادارے اس افسر کا نام جانتے ہیں ، تاہم ان کی دلچسپی یہ جاننے
میں ہے کہ مذکورہ افسر نے کتنی رقم لی؟رقم کی ادائیگی کہاں اور کیسے ہوئی؟
اسلام آباد سے بھی اعلیٰ حکام نے بھی رپورٹ طلب کر لی
رپورٹ : وسیم شیخ
ایبٹ آباد آپریشن کا معمہ جہاں ابھی تک حل نہیں ہوا اور اس بابت جہاں بہت سے سوالات گردش کر رہے ہیں وہاں ابھی تک اس پاکستانی انٹیلی جنس افسر کا نام سامنے نہیں آ سکا جس نے امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے اسامہ بن لادن کے محافظوں کی خون میں لت پت تصاویر نیوز ایجنسی رائٹر کو فروخت کی تھیں۔یہ تصاویر جب دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوئی تھیں تو اس سے امریکی انتظامیہ ہل کر رہ گئی تھی کیونکہ امریکی انتظا میہ نہیں چاہتی تھی کہ اس آپریشن کی تصاویرسامنے لائی جائیں ۔اس سے قبل صدر امریکہ بارک اوباما نے اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے وقت کی تصاویر کو شائع کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ ان تصاویر کا شائع کرنا سکیورٹی کیلئے خطرہ ہے، انہوں نے یہ تصاویر ریلیز کرنے کا ایک اور سبب بتاتے ہوئے کہا تھا کہ کسی شخص کے سر میں گولی ماری گئی ہوتو اس کی لاش تصویرں عوام میں گردش نہیں کرتی، اس بات کو یقینی بنانا ہمارے لئے بہت اہم ہے کہ اضافی تشدد کیلئے اشتعال مہیا نہ کیا جائے اور ان تصویروں کا استعمال پروپیگنڈ ہ کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال نہ کیا جا سکے ۔ بارک اوبامہ کے ان کلمات کو ابھی 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائٹر نے اس واقعہ میں مارے گئے تین افراد کی خون میں لت پت تصاویر جاری کر دیں۔ را ئٹر نے بتایا تھاکہ اس نے ایک پاکستانی سکیورٹی افسر سے یہ تصاویر خریدی ہیں۔ جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ اس سکیورٹی افسر نے جو صبح سویرے مذکورہ مکان میں گیا تھا اس نے یہ تصاویر اتاری تھیں، رائٹر کا کہنا ہے کہ تصویریں حقیقی ہیں، اب جب کہ آپریشن مارے گئے دیگر افراد کی لہولہان تصاویر کے جاری کئے جانے میں امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ اوبامہ کچھ اور کہہ رہے تھے اورامریکی انتظامیہ نے ان تصاویر کے سامنے آنے کے بعد کچھ اور موقف اپنایا۔ امریکہ کو ان تصاویر سے سکیورٹی کا خطرہ بھی محسوس ہو رہا تھا جو اب نہیں رہا تو پھر اب امریکہ کو اسامہ بن لادن کی لاش کی تصویر جاری کرنے میں کیا اعتراض ہے؟پاکستان میں بہت سے حلقے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس انٹیلی جنس افسر کا نام سامنے لایا جائے جس نے ڈالروں کے لالچ میں تصاویر رائٹر کو فروخت کیں ۔بعض انٹیلی جنس ادارے جو یقینی طور پر اس افسر کا نام جانتے ہیں ، تاہم ان کی دلچسپی یہ جاننے میں ہے کہ مذکورہ افسر نے کتنی رقم لی؟رقم کی ادائیگی کہاں اور کیسے ہوئی؟معلوم ہوا ہے کہ اس حوالے سے اسلام آباد سے اعلیٰ حکام نے بھی رپورٹ طلب کی ہے۔