Published On: Fri, Apr 22nd, 2011

اقبال زیڈ احمد کا سرکاری بینک کا 9کروڑکا قرضہ واپس کرنے سے انکار

Share This
Tags

والٹر پاور انٹرنیشنل نے رینٹل پاور پلانٹ لگانے کے لئے کوئی
سرمایہ کاری نہیں کی
بلکہ سرکاری بینک سے بغیر کوئی
دستاویزات جمع کرائے قرض حاصل کر لیا

اقبال زید احمد اپنے آپ کو صدر آصف علی زرداری کا دوست
بتاتے ہیں جبکہ ان کے امریکی
پارٹنر ڈیوڈ والٹر بھی ایک
امریکی ریاست کے گورنر رہ چکے ہیں


پاکستان میں ہر طرف لاقانونیت ہے اور بڑے اور بااثر لوگ ملک کی اہم ترین شخصیات سے اپنے تعلق کا فائدہ اٹھاتے فوائد سمیٹ رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت اقبال زید احمد کی بھی ہے جنہوں نے اپنے امریکی پارٹنر ڈیوڈ والٹر کے ساتھ مل کر رینٹل پاور پراجیکٹ کے لئے قواعد و ضوابط کے برعکس 2 ارب 80 کروڑ روپے کا قرض لیا اور اس رقم سے نہ تو کوئی مشینری خریدی اور نہ ہی کوئی بجلی کی پیداوار شروع کی ۔ اقبال زید احمد اپنے آپ کو صدر آصف علی زرداری کا دوست بتاتے ہیں جبکہ ان کے امریکی پارٹنر ڈیوڈ والٹر بھی ایک امریکی ریاست کے گورنر رہ چکے ہیں اور انہیں کرپشن کے الزام میں برطرف کر دیا گیا تھا ۔اقبال زیڈ احمد پر ایل پی جی گیس کے حوالے سے بھی کئی طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں ۔تفصیلات کے مطابق والٹر پاور انٹرنیشنل لمیٹڈ نامی کمپنی عالمی بینکنگ قوانین کے برعکس ایک سرکاری بینک سے قرضے کی مد میں 2 ارب 80 کروڑ روپے لے چکی ہے لیکن اب تک سود کی ادائیگی بھی نہیں کر رہی۔ اسٹیٹ بینک کی خفیہ دستاویزات کے مطابق کرپشن کے الزام میں برطرف امریکی گورنر ڈیوڈ والٹر کی کمپنی والٹر ، والٹر پاور انٹرنیشنل لمیٹڈ کو گدو اور نوڈیرو میں ریٹنل پاور پلانٹ پروجیکٹ کی فنانسنگ کے لیے اسٹیٹ بینک کے رولز کی خلاف ورزی کر کے 2 ارب 80 کروڑ روپے کا بھی قرضہ بھی دلوایا گیا۔ کمپنی کی طرف سے حاصل کیے گئے قرض پر سود کی ادائیگی بھی نہیں کی جا رہی جس کی وجہ سے بینک نے کمپنی کے اکاؤنٹ کو سب اسٹینڈرڈ قرار دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں والٹر پاور انٹرنیشنل لمیٹڈ کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ اس کمپنی پر الزام ہے کہ حکومت سے دونوں پروجیکٹس کا ایڈوانس لینے کے باوجود اس نے تا حال بجلی کی پیداوار شروع نہیں کی۔ اسٹیٹ بینک کی خفیہ دستاویزات کے مطابق والٹر پاور انٹرنیشنل لمیٹڈ نے رینٹل پاور پلانٹ لگانے کے لئے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی بلکہ سرکاری بینک سے قرض حاصل کر لیا۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری بینک نے رسک ہونے کے باوجود پروجیکٹ کی فنڈنگ کے لیے 60 کروڑ روپے کی ایل سی کمپنی سے 35 فیصد کیش مارجن لیے بغیر ہی کھول دی۔ یہ اقدام بھی اسٹیٹ بینک کے قواعد کی واضح خلاف ورزی کی ہے۔ اس قرض پر مئی 2009 ء سے نومبر 2009 ء تک سود کی رقم 8 کروڑ 70 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے جو کمپنی کی جانب سے تا حال ادا نہیں کی گئی۔ دستاویز کے مطابق اس پروجیکٹ کی فنانسنگ کے لیے ایل سی 28 مئی 2009 ء کو کھولی گئی تھی۔ بینک نے والٹر کمپنی سے اب تک ضروری دستاویزات بھی حاصل نہیں کیں۔ واضح رہے کہ والٹر پاور انٹرنیشنل کے مالک ڈیوڈ والٹر ہیں اور ان کے پاکستانی پارٹنر اقبال زیڈ احمد ہیں۔ والٹر انٹرنیشنل کمپنی کا دعویٰ ہے کہ کمپنی نے بینک قواعد کی خلاف ورزی نہیں کی اور اب تک 4 ارب روپے کی مشینری خریدی جا چکی ہے۔

Leave a comment