’’تمہی تو ہو محبوب مرے کیوں نہ تم سے پیار کروں‘‘
لازوال نغموں کے خالق خواجہ پرویز کی کمی پوری نہیں ہو سکے گی
خواجہ پرویز ان خوش قسمت اسٹنٹ ڈائریکٹرز میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ہدایت کاری میں نہ سہی لیکن نغمہ نگاری میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے
شوبز ڈیسک
پاکستان کے معروف نغمہ نگار خواجہ پرویز اناسی برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کرگئے ہیں۔ خواجہ پرویز ذیایبطس کے مرض میں مبتلا تھے اور ایک ہفتے سے لاہور کے میوہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔20جون کو اچانک ان کی طبعیت مزید بگڑ گئی اور انہیں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔ انہوں نے اپنے سوگواروں میں پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
خواجہ پرویز نے اپنے چالیس سالہ فلمی کیریئر کے دوران اردو اور پنجابی کے سینکڑوں ایسے گیت لکھے جو سامعین کے دلوں کی دھڑکن بنے اور آج بھی ایک بڑی تعداد انہیں گنگناتی پائی جاتی ہے۔
وہ 1932 میں ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور میں گوالمنڈی کے علاقے میں آبسے۔ان کا اصل نام خواجہ غلام محی الدین تھا اور پرویز تخلص کیا کرتے تھے بعد میں فلمی دنیا میں خواجہ پرویز کے نام سے مشہور ہوئے۔انہوں نے1954 میں دیال سنگھ کالج سے گریجویشن کی جہاں اس وقت کے
معروف ہدایت کار ولی کے صاحبزادے ظفر اقبال بھی زیر تعلیم تھے۔ خواجہ پرویز کی ظفر اقبال سے دوستی تھی جس کی وجہ سے ان کی ہدایت کار ولی تک رسائی ہوئی اور انہوں نے1955 میں انہیں اپنا اسٹنٹ رکھ لیا اور یوں ایک طرح سے ان کی فلمی کیئریر کا آغاز ہوا۔
خواجہ پرویز کے تحریر کردہ جو گیت مقبولِ عام ہوئے ان میں ’کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا‘، فلم سنگدل میں ان کا نغمہ’سن لے او جانِ وفا‘، فلم آئینہ میں ’تمہی تو ہو محبوب مرے کیوں نہ تم سے پیار کروں‘، فلم آنسو کا گانا ’تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں‘ اور فلم چاہت کا گانا ’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘ شامل ہیں۔ اس دوران انہوں نے تین پنجابی فلمیں’گڈی گڈا‘،’لکن میٹی‘اور سوہنی کمہارن مکمل کروائیں لیکن پھر وہ فلمی ادارہ ہی بند ہوگیا جس میں خواجہ پرویز کام کررہے تھے۔
لاہور کی فلمی دنیا میں اسٹنٹ ڈائریکٹروں کی تعداد ہزاروں میں ہوگی لیکن ان میں سے بہت کم اپنا کیریئر بنا پاتے ہیں۔ خواجہ پرویز ان خوش قسمت اسٹنٹ ڈائریکٹرز میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ہدایت کاری میں نہ سہی لیکن نغمہ نگاری میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔وہ معروف نغمہ نگار سیف الدین سیف کے اسٹنٹ اور شاگرد بن گئے۔ ان کی طبعیت پہلے سے ہی نغمہ نگاری کی طرف مائل تھی اور سیف الدین سیف کی شکل میں انہیں جیسے من کی منزل مل گئی۔
سب سے پہلے ہدایت کار دلجیت مرزا نے اپنی فلم ’رواج‘ کے گیت ان سے لکھوائے۔اس فلم میں مالا کی آواز میں گایا گیا ان کا تحریرکردہ گیت ’کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا‘ بہت مقبول ہوا۔اس گانے کی دھن ماسٹر عنایت نے بنائی تھی۔بعد ازاں خواجہ پرویز شباب کیرانوی کے ادارے سے منسلک ہوگئے جہاں ایم اشرف جیسے عظیم موسیقار بھی تھے۔ یہاں خواجہ پرویز کے لکھے گیت ایک کے بعد ایک ہٹ ہوتے چلے گئے۔خواجہ پرویز نے چالیس سالہ فلمی کیریئر کے دوران سینکڑوں فلمی گیت لکھے
دوسرے فلم سازوں کے ساتھ بنائی گئی فلموں میں فلم آنسو کا گانا ’تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں‘نے شہرت حاصل کی جبکہ فلم چاہت کا گانا ’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘ یقینی طور لاکھوں دلوں میں مٹھاس بھرگیا۔
وہ ایک باغ و بہار شخصیت تھے اور لگتا تھا کہ رنج والم کبھی انہیں چھو کر بھی نہیں گذرا۔ہمہ وقت دوسروں کی مدد کو تیار اور بات بات پر ایسے چٹکلے چھوڑتے جو مخاطب کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتے۔
پاکستان میں فلمی صنعت کے زوال کے دور میں بھی ان کے لکھے گیت مقبولیت کی سند حاصل کرتے رہے لیکن روزی روٹی کا سلسلہ بحال رکھنے کے لیے انہوں نے آخر وقت میں لاہور کے تھیٹروں میں بھی جانا شروع کردیا تھا جہاں ان کا نام بطور ہدایت کار لیا جاتا رہا اور چند ایک ایسے ڈرامے بھی پیش ہوئے جہاں بورڈ پر ان کا نام بطور ہدایت کار لکھا گیا۔
انہیں لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ان کے انتقال کے سوگ میں پر لاہور کے تمام تھیٹر ایک دن کے لئے بند رہے۔